مِری زندگی کا عجب بھاؤ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاؤ ہے
کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاؤ ہے
بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
نہ سوچو کسی میں محبت نہیں
دلوں میں اترتے چلے جاؤ، ہے
سمندر میں منجھدار کی رازدار
کنارے پہ ٹوٹی ہوئی ناؤ ہے
اجل کے ہوئے دستخط، اور پھر
نمک ہے نہ زخموں پہ چھڑکاؤ ہے
سنا دی غزل، خوب تھی ارتضیٰ
مگر اب یہ مونچھوں پہ کیوں تاؤ ہے
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment