Friday 27 April 2018

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں 
تیرے بغیر زیست تو ہے، زندگی نہیں 
میں دردِ عاشقی کو سمجھتا ہوں جان و روح 
کمبخت وہ بھی دل میں کبھی ہے، کبھی نہیں 
لا غم ہی ڈال دے مِرے دستِ سوال میں 
میں کیا کروں خوشی کو جو تیری خوشی نہیں 
کچھ دیر اور رہنے دے خوددارئ جنوں 
دامن تو چاک ہونا ہے لیکن ابھی نہیں 
ساقی نگاہِ ناز سے للہ کام لے 
سو جام پی چکا ہوں مگر بے خودی نہیں 
رکھنا پڑے گی تم کو تہی دامنی کی لاج 
مجھ کو کمی ضرور ہے تم کو کمی نہیں 
بہزادؔ صاف صاف میں کہتا ہوں حال دل 
شرمندۂ کمال مِری شاعری نہیں

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment