زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں
یہ بتانے کے لیے کوئی گھڑی ہے کہ نہیں
شور سے محض خموشی ہی نہ ٹوٹی ہو گی
جانے کمرے میں کوئی چیز بچی ہے کہ نہیں
پیڑ کے کان میں اک بات کہی تھی میں نے
مدتوں بعد ہنسا ہوں، سو تذبذب میں ہوں
یہ جو آواز سی آئی تھی، ہنسی ہے کہ نہیں
تیری نظروں کا بیان اور ہے آئینے کا اور
کیا کہا جائے کہ مجھ میں بھی کمی ہے کہ نہیں
جلتا رہتا ہے ہمہ وقت مِرے دل کا چراغ
کیسے معلوم پڑے رات ڈھلی ہے کہ نہیں
تجھ کو روکا تھا کہ مت دیکھ مجھے خوابوں میں
آنکھیں مَلتے ہوئے اب گرد چبھی ہے کہ نہیں
بلب روشن ہیں مگر در نہیں کھلتے، شارقؔ
کون دیکھے کہ مکانوں میں کوئی ہے کہ نہیں
سعید شارق
No comments:
Post a Comment