Wednesday 11 April 2018

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں
یہ بتانے کے لیے کوئی گھڑی ہے کہ نہیں
شور سے محض خموشی ہی نہ ٹوٹی ہو گی
جانے کمرے میں کوئی چیز بچی ہے کہ نہیں
پیڑ کے کان میں اک بات کہی تھی میں نے
پھول بکھرے کہ نہیں، شاخ کٹی ہے کہ نہیں
مدتوں بعد ہنسا ہوں، سو تذبذب میں ہوں
یہ جو آواز سی آئی تھی، ہنسی ہے کہ نہیں
تیری نظروں کا بیان اور ہے آئینے کا اور
کیا کہا جائے کہ مجھ میں بھی کمی ہے کہ نہیں
جلتا رہتا ہے ہمہ وقت مِرے دل کا چراغ
کیسے معلوم پڑے رات ڈھلی ہے کہ نہیں
تجھ کو روکا تھا کہ مت دیکھ مجھے خوابوں میں
آنکھیں مَلتے ہوئے اب گرد چبھی ہے کہ نہیں
بلب روشن ہیں مگر در نہیں کھلتے، شارقؔ
کون دیکھے کہ مکانوں میں کوئی ہے کہ نہیں

سعید شارق

No comments:

Post a Comment