زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار
عشق ہو یا کار ہائے روزگار
کر لیا ہوتا کسی سے میں نے پیار
زندگی میری بھی ہوتی زرنگار
یادِ ماضی ناچتی ہے، اور میں
فلم کے وقفے میں جیسے آج کل
چل رہا ہے زندگی کا اشتہار
یوں سمجھ، منٹو کا افسانہ ہوں میں
اور تُو رومانوی ناول ہے یار
گریۂ دردِ گزشتہ کر تو لوں
آج کے غم! کر ذرا سا انتظار
ڈھونڈنے نکلا جو خود کو ایک دن
فون اپنا ہی ملایا بار بار
اپنے آپے میں نہیں ہوں اِن دنوں
مجھ کو میرے نام سے بھی مت پکار
اک صدائے بازگشت آتی رہی
اور قدم اٹھتے رہے بے اختیار
ہر کسی کے غم کو اپنا لو ضمؔیر
کیا ہوا جو ایک تم، دُکھڑے ہزار
اویس ضمیر
No comments:
Post a Comment