Saturday 7 April 2018

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار 
عشق ہو یا کار ہائے روزگار 
کر لیا ہوتا کسی سے میں نے پیار 
زندگی میری بھی ہوتی زرنگار
یادِ ماضی ناچتی ہے، اور میں
وقت کے نوٹوں کو کرتا ہوں نثار 
فلم کے وقفے میں جیسے آج کل 
چل رہا ہے زندگی کا اشتہار 
یوں سمجھ، منٹو کا افسانہ ہوں میں
اور تُو رومانوی ناول ہے یار
گریۂ دردِ گزشتہ کر تو لوں
آج کے غم! کر ذرا سا انتظار 
ڈھونڈنے نکلا جو خود کو ایک دن
فون اپنا ہی ملایا بار بار 
اپنے آپے میں نہیں ہوں اِن دنوں 
مجھ کو میرے نام سے بھی مت پکار 
اک صدائے بازگشت آتی رہی 
اور قدم اٹھتے رہے بے اختیار 
ہر کسی کے غم کو اپنا لو ضمؔیر 
کیا ہوا جو ایک تم، دُکھڑے ہزار

اویس ضمیر 

No comments:

Post a Comment