وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں
صبح بھی خرچ ہوئی رات کی تیاری میں
کتنی مشکل سے ملی مجھ کو کلیدِ درِ چشم
اور اب دیکھا تو کچھ بھی نہیں الماری میں
اس کو تکنا تھا کہ آنکھوں کی تھکن ختم ہوئی
جانے کیسی مِری آواز تھی، میں کیسا تھا
بھولتا جاتا ہوں خود کو بھی اداکاری میں
وہ سیہ رنگ نفس بہتا ہے مجھ میں اب تک
چشمۂ دُود نہاں ہے ابھی چنگاری میں
جس طرح قد سے بڑے کپڑے پہن لے کوئی
ایسا لگتا ہوں میں اب حالتِ سرشاری میں
سعید شارق
No comments:
Post a Comment