بنے ہیں دشت میں دیوار و در وغیرہ بھی
ہمارے ساتھ ہے زعمِ سفر وغیرہ بھی
مِرے مدار میں وہ خوف سے اتر نہ سکے
خلا میں لٹکے ہیں شمس و قمر وغیرہ بھی
یہ کس ستارے سے آئی ہے منظروں میں چمک
یہ پھول وول وہاں خاک کام آتے مِرے
وہ ساتھ لائے تھے تیغ و سِپر وغیرہ بھی
یہ دہر اُگلے گا ان کو بھی کیمیا کر کے
پڑے ہیں خاک میں لعل و گوہر وغیرہ بھی
میں شعر لکھ کے زمانے پہ چھوڑ دیتا ہوں
کریں گے یار ہی نقد و نظر وغیرہ بھی
میں داد پا نہ سکا بزمِ کم سخن میں فدا
سو کر سکا نہ دلوں پر اثر وغیرہ بھی
نوید فدا ستی
No comments:
Post a Comment