نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہو گئی، ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے
وہ قبر نئی کس کی بنی ہے، یہ بتا دو؟
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے
اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
صحرا میں روانی سے گزرنا نہیں ممکن
اے اہل جنوں خاک بسر کیوں نہیں جاتے
محرومی کا اپنی یہ سبب ہے کہ ابھی تک
سوچا ہی نہیں ہم نے کہ مر کیوں نہیں جاتے
ساغر کو مرے موت کے زہراب سے بھر دو
میخانے میں کہتے ہو کہ گھر کیوں نہیں جاتے
اللہ کا ڈر ارتضیٰ جب دل سے نکالا
ہم اپنے ہی پھر سائے سے ڈر کیوں نہیں جاتے
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment