کیوں مرض لادوا نہیں بنتا
تُو مری کیوں دوا نہیں بنتا
کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا
میری جب تُو دعا نہیں بنتا
کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا
میری جب تُو دعا نہیں بنتا
سب کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
کوئی اپنا سدا نہیں بنتا
میں نبھاتا ہوں ہر تعلق کو
جب تلک وہ سزا نہیں بنتا
فاصلے وقت یوِں سجاتا ہے
تا ابد راستہ نہیں بنتا
ان کو بھاتا نہیں پرانا کچھ
اور میں بھی نیا نہیں بنتا
خود سے جس کو نظر نہیں آتا
اس سے کچھ پوچھنا نہیں بنتا
لوگ پیچھا ترا نہ چھوڑیں گے
جب تلک تُو برا نہیں بنتا
لکھ دیا ہم نے بے وفا خود کو
جب کوئی با وفا نہیں بنتا
جو ہوں جیسا ہوں، اب قبول کرو
جھوٹ میں پارسا نہیں بنتا
جیسے سائے کو روشنی لازم
میں بھی تیرے سوا نہیں بنتا
اس ہنر سے ہمیں بغاوت ہے
جو کبھی انتہا نہیں بنتا
ہم کہاں کے ہیں کوزہ گر ابرک
ہم سے جب آپ سا نہیں بنتا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment