Wednesday 11 January 2023

مجھ کو اکیلا کر کے بھی تنہا نہیں کہا

 مجھ کو اکیلا کر کے بھی تنہا نہیں کہا

اپنا سمجھ لیا،۔ مگر اپنا نہیں کہا

بے شک بنایا اس نے ہدف مجھ کو رات دن

جیسا مجھے کہا، اسے ویسا نہیں کہا

راہِ حیات میں کئی چہرے حسیں ملے

جو کوئی بھی ملا اسے تم سا نہیں کہا

اتنی مدت بعد ملے ہو کچھ تو دل کا حال کہو

 اتنی مدت بعد ملے ہو کچھ تو دل کا حال کہو

کیسے بِیتے ہم بِن پیارے اتنے ماہ و سال کہو

رُوپ کا دھوکا سمجھو نظر کا یا پھر مایا جال کہو

پریت کو دل کا روگ سمجھ لو یا جی کا جنجال کہو

آنکھوں دیکھی کیا بتلائیں حال عجب کچھ دیکھا ہے

دُکھ کی کھیتی کتنی ہری اور سُکھ کا جیسے کال کہو

نئے زمانے کے نت نئے حادثات لکھنا

 نئے زمانے کے نت نئے حادثات لکھنا

اداس پھولوں کی زرد پتوں کی بات لکھنا

فلک دریچوں سے جھانکتے خوشنما مناظر

زمیں پہ بے زاریوں میں لپٹی حیات لکھنا

تھکن کا احساس ہو تو کر لینا یاد اس کو

ادھورے خوابوں کی سر پھری کائنات لکھنا

لا کے چھوڑا ہے مجھے چھوڑنے والے نے کہاں

 لا کے چھوڑا ہے مجھے چھوڑنے والے نے کہاں

چین کا سانس لِیا درد کے پالے نے کہاں

اپنی دھرتی سے ہؤا دور تو احساس ہُؤا

کھینچ کے لایا ہے روٹی کے، نِوالے نے کہاں

جانتا ہوں کہ تُو نادان سمجھتا ہے مجھے

اِک ذرا راز کِیا فاش یہ بالے نے کہاں؟

بے آواز جگراتے کاغذوں میں اترے ہیں

 بے آواز جگراتے


بے آواز جگراتے

کاغذوں میں اترے ہیں

بے زبان جگراتے

کون، کب، کہاں، کیسے

کیا حساب رکھے گا

کون آ کے پوچھے گا

فیصلہ ممکن ہے یوں منصف اگر عادل نہ ہو

 فیصلہ ممکن ہے یوں منصف اگر عادل نہ ہو

قتل تو ہوتے رہیں ثابت،۔ کوئی قاتل نہ ہو

مشکلیں آساں نہ ہوں میری تو مجھ کو غم نہیں

پر جو ہے آساں کم از کم وہ تو اب مشکل نہ ہو

دفن ہیں دفتر کی فائل میں ہزاروں مسئلے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے قبر ہو فائل نہ ہو

کام بس ایک یہی شام و سحر ہے اس کا

 کام بس ایک یہی شام و سحر ہے اس کا

جھوٹ کہتا ہے سلیقے سے، ہنر ہے اس کا

سنگ اوروں پہ اٹھانے کی ہے عادت اس کی

بھول جاتا ہے وہ خود کانچ کا گھر ہے اس کا

راس آتے ہیں کہاں دن کے اجالے اس کو

شب کے تاریک سمندر میں سفر ہے اس کا

اس گھر میں مرے ساتھ بسر کر کے تو دیکھو

 اس گھر میں مِرے ساتھ بسر کر کے تو دیکھو

ٹوٹی ہوئی کشتی میں سفر کر کے تو دیکھو

دھرتی سے بچھڑنے کی سزا کہتے ہیں کس کو

طوفاں میں جزیروں پہ نظر کر کے تو دیکھو

خوابوں کو صلیبوں پہ سجا پاؤ گے ہر سُو

آنکھوں کے بیاباں سے گزر کر کے تو دیکھو

شاعری میں ہیر جیسا رنگ واپس آئے گا

 شاعری میں ہیر جیسا رنگ واپس آئے گا 

قافیہ ہو کر غزل میں جھنگ واپس آئے گا 

چھوڑ جا لیکن محبت پر بھروسہ ہے مجھے

تُو مِری یادوں سے ہو کر تنگ واپس آئے گا 

یہ سفر ایسا اچھنبا ہے، کہ راہِ عشق پر

بے نیازی سے گیا جو دنگ واپس آئے گا 

ہمیں ایک دعا تھامنے آئے گی

 تیرے ساتھ گزرے دنوں کی کوئی ایک دھندلی سی تصویر 

جب بھی کبھی سامنے آئے گی

تو ہمیں ایک دعا تھامنے آئے گی

بڑھاپے کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے

تیری بے لوث بانہوں کے گھیرے نہیں بھول پائیں گے ہم

ہم کو تیرے توسط سے ہنستے ہوئے جو ملے تھے

Tuesday 10 January 2023

تیرے نام سے وحشت ہے بیزاری ہے

 تیرے نام سے وحشت ہے بیزاری ہے

نہ ملنے کی اپنے آپ سے باری ہے

ہار سنگھار کی شرطیں پوری کر ڈالیں

آئینہ دیکھ کے رونے کی تیاری ہے

گریہ گریہ سب تصویریں میری ہیں

قریہ قریہ رونے میں سرشاری ہے

بہت دور گاؤں ہے میرا

 بہت دور ایک گاؤں 


بہت دور گاؤں ہے میرا 

جہاں میرے بچپن کے جگنو 

ابھی تک گھنے پیپلوں پر چمکتے ہیں 

میری زباں سے گِرے توتلے لفظ اب بھی 

کئی سال سے غیر آباد گھر کی 

راہ کے پیڑ بھی فریاد کیا کرتے ہیں

 راہ کے پیڑ بھی فریاد کیا کرتے ہیں

جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتے ہیں

گرد جمتی چلی جاتی ہے سبھی چیزوں پر

گھر کی تزئین تو افراد کیا کرتے ہیں

پھول جھڑتے ہیں شفق فام تِرے ہونٹوں سے

ایسی باتیں تو پری زاد کیا کرتے ہیں

وہ ہاتھ بے خیالی میں کاندھے سے ہٹ گئے

 وہ ہاتھ بے خیالی میں کاندھے سے ہٹ گئے

ہم زندگی کی فلم کے پردے سے ہٹ گئے

کچھ روز تجھ کو دیکھنے آئے گلی میں ہم

اک روز آپ ہی تِرے رستے سے ہٹ گئے

وقتِ وصال ایک بُری یاد کی طرح

سینے سے لگ کے ہم تِرے سینے سے ہٹ گئے

حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

 حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو

سات سروں کی لہروں پہ ہلکورے لیتے پھول سے ہیں

اک مدہوش فضا سنتی ہے اک چڑیا کے گانے کو

بولتی ہو تو یوں ہے جیسے پھول پہ تتلی ڈولتی ہو

تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسے ویرانے کو

مرے اشکوں کو اپنے درد کی تعبیر مت دینا

 مِرے اشکوں کو اپنے درد کی 

تعبیر مت دینا

کہ میں جس درد کی 

مدھم شمع کی آنچ سے

کچھ موم کے قطرے بناتی ہوں

میرا دل موم ہے پگھلا کے

کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو

 کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو

یہ سمندر کہیں سچ مچ میں سمندر ہی نہ ہو

جس کی امید پہ سر پھوڑ رہی ہے دنیا

کہیں اس آہنی دیوار میں وہ در ہی نہ ہو

جان کر پھول جسے دل سے لگائے ہوئے ہیں

غور سے دیکھ لیں چُھو کر اسے پتھر ہی نہ ہو

ترے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے

 تِرے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے

تجھے بھلانا بھی چاہا مگر بھلا نہ سکے

نہ جانے کون سی ایسی تھی دل پہ مجبوری

ہنسی بھی آئی لبوں پر تو مسکرا نہ سکے

دئیے ہیں زخم جو دل پر غمِ محبت نے

ہم آنسوؤں سے بھی ان کو کبھی مٹا نہ سکے

دھرتی پہ فلک سے نہ سمندر سے گرا ہوں

 دھرتی پہ فلک سے نہ سمندر سے گِرا ہوں

جھرنے کی طرح میں کسی پتھر سے گرا ہوں

غیروں کی مجال اتنی کبھی ہو نہیں سکتی

لگتا ہے کہ میں اپنوں کی ٹھوکر سے گرا ہوں

اک پھول کی پتی نے جگر کاٹ دیا ہے

شبنم کی طرح میں بھی گل تر سے گرا ہوں

اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا

 اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا 

تُو بھی تنہا رہ گیا اور میں بھی تنہا رہ گیا 

رات کے پچھلے پہر جب لکڑیاں جل بُجھ گئیں 

برف پڑنے لگ گئی  قصہ ادھورا رہ گیا 

چاند شب بھر جھیل کے پانی میں غوطہ زن رہا 

دور اک سہما ستارہ جلتا بجھتا رہ گیا 

میں نے اے کشمیر تیری بستی کے ہر شخص سے

 کشمیر


میں نے اے کشمیر تیری

بستی کے ہر شخص سے جا کر

تیرا پتہ جو پوچھا تو

سب کے لب پر، چپ کی اک رات سی تھی

خاموشی کی بات بھی تھی

تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

 تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

بچے نادان ہیں پتھر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

جن جزیروں کو یہ جاتے ہیں قناعت کر لو

سوچتے رہنے میں لنگر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

اعتماد ان پہ کرو خدشہ ہے یہ بھی ورنہ

دستِ ساحل سے سمندر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

کچھ بھی نہیں ہے پاس تمہاری دعا تو ہے

 کچھ بھی نہیں ہے پاس تمہاری دعا تو ہے

اس شہرِ بے چراغ میں اک آسرا تو ہے

ہاتھوں میں میرے چاند ستارے نہیں تو کیا

دل میں تِرے یقین کا روشن دیا تو ہے

رستے کی مشکلوں سے ہراساں ہے کس لیے

جس کا نہیں ہے کوئی بھی اس کا خدا تو ہے

لے جا رہا ہے عشق مرا اب کدھر مجھے

 أفکار پریشاں


لے جا رہا ہے عشق مِرا اب کدھر مجھے

اپنے سوا کوئی بھی نہ آئے نظر مجھے

پہلے تو منجدھار بھی ہوتا تھا ہمسفر

ساحل سے بھی ہے لگنے لگا اب تو ڈر مجھے

لایا کہاں ہے مجھ کو جنوں راہِ عشق میں

خود کا ہے کچھ خیال نہ تیری خبر مجھے

اک درد مسلسل کا اثر کاٹ رہا تھا

 اک دردِ مسلسل کا اثر کاٹ رہا تھا

میں پھول سے ہیرے کا جگر کاٹ رہا تھا

بے لوث محبت کا ثمر کاٹ رہا تھا

چپ چاپ پڑا شام و سحر کاٹ رہا تھا

رشتوں کی اذیت کا سفر کاٹ رہا تھا

کاٹے نہیں کٹتا تھا مگر کاٹ رہا تھا

Monday 9 January 2023

جن کو اس کار محبت میں کمال آتے ہیں

 جن کو اس کارِ محبت میں کمال آتے ہیں

ایسے لوگوں ہی پہ حد درجہ زوال آتے ہیں

صاف بچ جاتے ہیں وہ لوگ جو دل توڑتے ہیں

ٹوٹے دل والوں پہ ہی سارے سوال آتے ہیں

رفتہ رفتہ ہی تحمل سے لیا جاتا ہے کام

پہلے پہلے تو طبیعت میں ابال آتے ہیں

کچے گھر کی دیواروں پر نقش بناتا رہتا ہوں

 کچے گھر کی دیواروں پر

اپنے کچھ موہوم خیالوں کے خامے سے

نقش بناتا رہتا ہوں

کچھ بے معنی سے نقش

جنہیں منظوم کروں تو تاج محل کی چھوٹی سی تصویر بنے

اک چھوٹی سی تصویر

سب لوگ کہانی میں ہی مصروف رہے تھے

 سب لوگ کہانی میں ہی مصروف رہے تھے

دراصل اداکار حقیقت میں مرے تھے

جاتے ہوئے کمرے کی کسی چیز کو چھو دے

میں یاد کروں گا کہ تیرے ہاتھ لگے تھے 

آنکھیں بھی تِری فتح نہ کر پائے ابھی تک

کس لمحۂ بے کار میں ہم لوگ بنے تھے

لہو لہو آرزو بدن کا لحاف ہو گا

لہو لہو آرزو بدن کا لحاف ہو گا

وہ کتنا بُزدل ہے آج یہ انکشاف ہو گا

مِری ہر اک بات تھی حقائق کی روشنی میں

یہ جانتا تھا زمانہ میرے خلاف ہو گا

حقیقتوں کے چراغ ہر سو جلا کے رکھنا

مجھے یقیں ہے کہ جُھوٹ کا انعطاف ہو گا

دیپ جلتا ہوا دامن سے بجھایا ہم نے

 دِیپ جلتا ہوا دامن سے بجھایا ہم نے 

رات کو رقص کیا، ہجر منایا ہم نے 

گھر بنانے کی تمنا تھی ادھوری ہی رہی 

ایک نقشہ تو بہرحال بنایا ہم نے 

روٹھنے والا کسی طور بھی مانا ہی نہیں 

اس کو اک گیت کا مُکھڑا بھی سنایا ہم نے 

تیری یادیں میرے پاس ایک چنگاری سوکھی گھاس

 تیری یادیں میرے پاس

ایک چنگاری سُوکھی گھاس

تیرے بِن اے میرے ساجن

یہ پورا جیون بَن باس

آج کا سورج ڈوب گیا

ٹوٹ گئی پھر میری آس

نم اس لیے آنکھوں میں نمو یاب نہیں ہے

 نم اس لیے آنکھوں میں نمویاب نہیں ہے

مجھ ریت کے دریا میں کہیں آب نہیں ہے

نیندوں کی طلب گار تو ہے آنکھ ہماری

بس مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خواب نہیں ہے

بازار میں بھی ہاتھ پکڑ لیتا ہے میرا

یہ عشق ابھی واقفِ آداب نہیں ہے

سنا ہے دل کا ذمہ بس ہے اتنا سا

 سنا ہے دل کا ذمہ بس ہے اتنا سا

اِدھر کے کچھ لہو کو یہ اُدھر دھکا لگاتا ہے

ہزاروں ماہرینِ دل کا اجماع ہے تو ٹھیک ہو گا

مگر کچھ ماہ سے سینے میں حِدت کی کمی سی ہے

لہو کی آنیاں اور جانیاں اب بھی برابر ہیں

جسے وہ بی پی کہتے ہیں وہ حد میں ہے

زہر نبضوں میں زمانے کا بھرا جاتا ہے

 زہر نبضوں میں زمانے کا بھرا جاتا ہے

قہقہے مرتے ہیں تو شعر کہا جاتا ہے

لوگ ہیں حسن کو ترسے ہیں برا مت مانیں

چھوڑئیے دیکھنے دیں آپ کا کیا جاتا ہے

آگ ہو راکھ ہو بارود ہو جن میں ہر وقت

ان ہواؤں میں بتا کیسے اڑا جاتا ہے

ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

 ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے

بھر ڈالا انہیں بھی مِری بیدار نظر نے

جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے

اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تِری خاطر

وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے

Sunday 8 January 2023

سب پہ کھلتا نہیں یہ مسلک ہے

 سب پہ کھلتا نہیں یہ مسلک ہے

عشق والوں کی اپنی بیٹھک ہے

در مقفل ہے زندگانی کا

اور ہاتھوں سے لپٹی دستک ہے

خواب لیٹے ہوئے ہیں پٹڑی پر

آنکھ کی سمت بند پھاٹک ہے

بچھڑ گئے تو یہ دل عمر بھر لگے گا نہیں

 بچھڑ گئے تو یہ دل عمر بھر لگے گا نہیں

لگے گا، لگنے لگا ہے، مگر لگے گا نہیں

نہیں لگے گا اسے دیکھ کر، مگر خوش ہے

میں خوش نہیں ہوں مگر، دیکھ کر لگے گا نہیں

جنوں کا حجم زیادہ، تمہارا ظرف ہے کم

ذرا سا گملا ہے، اس میں شجر لگے گا نہیں

کس جگہ ہم سفر و رخت سفر چھوڑ دیا

 کس جگہ ہم سفر و رختِ سفر چھوڑ دیا

یہ بھی معلوم نہیں خود کو کدھر چھوڑ دیا

جانے والے کے تعاقب میں گیا تھا اک دن

خود پلٹ آیا ہوں آنکھوں کو اُدھر چھوڑ دیا

چاہتا تھا کہ محبت کا نشاں باقی رہے

میں نے سب زخم بھرے، زخمِ جگر چھوڑ دیا

خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے

 خنک ہوا میں بڑی شعلہ خیز خوشبو ہے

خیال یار! چنبیلی کی تیز خوشبو ہے

ہوا کے ہاتھ نہ لگ جائے موسموں سے کہو

کہ ایک پھول کا سارا جہیز خوشبو ہے

چُرا گئے ہیں تِری انگلیوں کا لوچ حروف

عجیب خط ہے عجب عطر بیز خوشبو ہے

اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے

  اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے

خوشبو وہ چاندنی کی مِرے ذائقوں میں ہے

میں سوچ کے بھنور میں تھا جس شخص کے لیے

وہ خود بھی کچھ دنوں سے بڑی الجھنوں میں ہے

اس کا وجود خامشی کا اشتہار ہے

لگتا ہے ایک عمر سے وہ مقبروں میں ہے

مبہم تخیلات کے پیکر تراشنا

مُبہم تخیّلات کے پیکر تراشنا

ہے مشغلہ خلاؤں میں منظر تراشنا

لڑنا ہر ایک لمحہ سمندر سے رات کے

اور خواب کے جزیرے میں اک گھر تراشنا

آنکھوں کو میری آپ نے سونپا ہے خوب کام

جگنو اُچھالنا،۔ کبھی گوہر تراشنا

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لُطفِ سفر بھی

جن آنکھوں سے دیکھا تھا اِدھر دیکھ اُدھر بھی

کیا چیز ہے ظالم تِری دُزدیدہ نظر بھی

اتنا ہے ادب آمدِ گُل رو کا چمن میں

خاموش ہیں بیٹھے ہوئے مرغان سحر بھی

ٹپکی جو شوخیوں کی ادا سر سے پاؤں تک

 ٹپکی جو شوخیوں کی ادا سر سے پاؤں تک

ڈوبی عرق میں ان کی حیا سر سے پاؤں تک

خدا بچائے تمہاری نشیلی آنکھوں سے

کہ اک نظر جسے دیکھا وہ پھر سنبھل نہ سکا

یہ بھی تھی اک ادا کہ وہ آئے کسی کے پاس

اوڑھے ہوئے ردائے حیا سر سے پاؤں تک

Saturday 7 January 2023

جہیز بھاری قسمیں بوجھل رسمیں

 جہیز


بھاری قسمیں، بوجھل رسمیں

سستے راگ ملہار کے

درپن زیور، گھائل پیکر

بڑھتے روگ سنگھار کے

پگڑی اتری، آنگن گروی

اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی

 اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی

جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی

لہجے کی تیز دھار سے زخمی کیا اسے

پیوست دل میں لفظ کی سنگین ہم نے کی

لائے بروئے کار نہ حسن و جمال کو

موقع تھا پھر بھی رات نہ رنگین ہم نے کی

تمام خوشیوں کو بس ایک غم نے گھیر لیا

 تمام خوشیوں کو بس ایک غم نے گھیر لیا

عجیب ہے کہ زیادہ کو کم نے گھیر لیا

کنیزیں، مالِ غنیمت کے ساتھ آتی رہیں

محل کا نصف، کم از کم، حرم نے گھیر لیا

پتہ تھا اس سے بچھڑتے ہی دوست گھیریں گے

وہی ہوا، مجھے رنج و الم نے گھیر لیا

ہنسی کاٹ کے بھیڑ سے نکل آیا

 صحرا نورد کا قصہ


ہنسی کاٹ کے بھیڑ سے نکل آیا

گاڑی کی رفتار، خون کی گردش یکساں تیز ہوئی

صحرا نورد شہر کی جانب بڑھا

مٹی کے اونچے ٹیلوں پر 

اس نے ایک دن یونہی خواب دیکھا تھا

کوئی وار مجھ پہ ہو کارگر مرے دشمنوں کے حساب سے

 کوئی وار مجھ پہ ہو کارگر، مِرے دشمنوں کے حساب سے 

اسی انتظار میں مر گئے کئی درجنوں کے حساب سے

مِری چھت ٹپکنے لگی تو پھر مجھے ان خیالوں نے آ لیا 

کہ یہ بارشیں ذرا تیز ہیں مِرے برتنوں کے حساب سے

وہاں اک دوپٹہ تھا ریشمی، یہاں ایک رسی تھی بان کی

یہی گھر سے جلدی میں مل سکا انہیں گردنوں کے حساب 

ہم جب بھی شش جہات کا نقشہ بنائیں گے

 ہم جب بھی شش جہات کا نقشہ بنائیں گے

یہ طے رہا کے آپ سے اچھا بنائیں گے

جد و جہد جو شوق کی دے دی تو بادشاہ

یہ کاٹ کر پہاڑ کو رستہ بنائیں گے

ہم رنج خور لوگ تو ایسے حریص ہیں

میت سے ماں کی نظم کا نطفہ بنائیں گے

عجیب درد کی شدت سے ہمکنار ہے دل

 عجیب درد کی شدت سے ہمکنار ہے دل

کسی نے پھر سے پکارا ہے بے قرار ہے دل

شدید دکھ ہے کہ تجھ کو پرکھ نہیں پائے

تمہارے ساتھ تعلق پہ شرمسار ہے دل

یہ آنکھ نم ہے تو مطلب کہ آنکھ زندہ ہے

یہ دل دھڑکتا ہے مطلب کہ تار تار ہے دل

ملو مجھ سے زمیں کی موت واقع ہو رہی ہے

 ملو مجھ سے

زمیں کی موت واقع ہو رہی ہے اور میں اب تک

اسی سرحد پہ بیٹھا ہوں 

جہاں تم نے بٹھایا تھا

مِری آنکھوں کی چھاگل میں کوئی آنسو نہیں باقی

مجھے رونے کی حسرت ہو رہی ہے 

صبر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے

 صبر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے

پھر بھی سینے میں کوئی کتنے کلیجے رکھے

ہم نے بہنے دیا ظالم کی بغاوت میں لہو

حاکمِ وقت کی چوکھٹ پہ جنازے رکھے

تو قضا کرتا رہا ہم کو نمازوں کی طرح

ہم نے عیدوں پہ تِرے نام کے روزے رکھے

میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں

 میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں

تمام شہر کی سڑکوں کی رائیں لکھتا ہوں

طویل گلیوں میں خاموشیاں اگی ہیں مگر

ہر اک دریچے پہ جا کر صدائیں لکھتا ہوں

سفید دھوپ کے تودے ہی جن پہ گرتے ہیں

انہی اداس گھروں کی کتھائیں میں لکھتا ہوں

Friday 6 January 2023

مجھے تم سے محبت ہے

 ہار جیت


کسی بیدرد لمحے میں

کہا تھا اس نے یہ مجھ سے

مجھے تم سے محبت ہے

محبت ہے بڑی طاقت

محبت جیت جائے گی

زمانہ ہار جائے گا

ذرا سی چوٹ لگی تھی کہ چلنا بھول گئے

ذرا سی چوٹ لگی تھی کہ چلنا بھول گئے

شریف لوگ تھے گھر سے نکلنا بھول گئے

تِری امید پہ شاید نہ اب کھرے اتریں

ہم اتنی بار بجھے ہیں کہ جلنا بھول گئے

تمہیں تو علم تھا بستی کے لوگ کیسے ہیں

تم اس کے بعد بھی کپڑے بدلنا بھول گئے

آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے

 آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے

عشق والوں کی کہاں چیخ سنائی دی ہے

رات کی شاخ ہلی اور گرے پیلے پھول

درد کے پیڑ نے یوں ہم کو کمائی دی ہے

شور اتنا کہ سنائی نہ دیا تھا کچھ بھی

آنکھ کھولی ہے تو آواز دکھائی دی ہے

طائر اشک جو آنکھوں میں اتارا جاتا

 طائرِ اشک جو آنکھوں میں اتارا جاتا

دشت کا دشت تمناؤں پہ وارا جاتا

خواہشِ وصل، شبِ تار گلے ملتے ہی

دل کی بستی سے تِرا ہجر گزارا جاتا

اپنا جو کچھ تھا درِ یار پہ چھوڑ آیا ہوں

جاں بچا لیتا مگر یار کا یارا جاتا

یوں جھکاتے ہی ترے در پہ جبیں کانپتی ہے

 یوں جھکاتے ہی تِرے در پہ جبیں کانپتی ہے

جیسے بھونچال میں کچھ پل کو زمیں کانپتی ہے

جب بھی ڈرتا ہوں مِرا جھوٹ نہ پکڑا جائے

ہائے، کم بخت! یہ آواز وہیں کانپتی ہے

اس نے دیکھا ہے معلم کی جو آنکھوں میں شرر

چھپ کے بیٹھی ہے وہ مکتب میں کہیں، کانپتی ہے

دل خراب کے احکام ٹھیک لگنے لگے

 دل خراب کے احکام ٹھیک لگنے لگے

لیے جو فیصلے ناکام، ٹھیک لگنے لگے

مِرا شمار ان ہی سر پھروں میں ہوتا ہے

جنہیں اداسی سرِ شام ٹھیک لگنے لگے

سماعتوں کو خموشی کی وہ اذیت دو

کہ ارد گرد کا کُہرام ٹھیک لگنے لگے

خزاں بہار کا جھگڑا کھڑا نہ ہونے دیا

 خزاں بہار کا جھگڑا کھڑا نہ ہونے دیا

شجر لگایا بھی خود، خود ہرا نہ ہونے دیا

یوں فرض اپنا نبھاتے رہے طبیب سبھی

کسی کو تیرے مرض کی دوا نہ ہونے دیا

ہر ایک بار کئے وعدے جاں فزا تجھ سے

ہر ایک بار مگر کچھ نیا نہ ہونے دیا

لگتا ہے اپنے عہد و بیاں سے مکر گئے

 لگتا ہے اپنے عہد و بیاں سے مکر گئے

اے شہر وہ دلوں کے جواری کدھر گئے

کوئی مکالمہ ہی نہیں رات سے مِرا

میں چُپ ہوں میرے روشنیوں والے مر گئے

محسوس کر کے سوچا مجھے ایک شخص نے

میرے دل و دماغ چراغوں سے بھر گئے

Thursday 5 January 2023

میں دلگرفتہ ہوں تازہ غموں کی کن من سے

 میں دلگرفتہ ہوں تازہ غموں کی کِن مِن سے

تمہاری یاد بھی آئی نہیں کئی دن سے

ملا کے دیکھ چکی وہ پری سبھی نمبر

کُھلا نہ لاک مِرے دل کا تو کسی پِن سے

بہت سے خواب سجائیں گے تیری قربت کے

ستم کی مشق کریں گے دماغِ کمسن سے

گلاب زرد پڑے ہیں سب انتظار کے دوست

 گلاب زرد پڑے ہیں سب انتظار کے، دوست 

خزاں میں آ کے ملے ہیں مجھے بہار کے دوست

تمہیں نشانہ لگانا سِکھا رہے ہیں جو لوگ

تمہاری صف میں کھڑے ہیں مِری قطار کے دوست

مِرے نصیب میں خوشیاں وہ لوگ بھر رہے ہیں 

جو لوگ پھول کے دشمن ہیں اور خار کے دوست 

کہاں گئے وه رابطے وه ضابطے

 مخملی غلاف میں

ریشمی لباس میں

سانچے ہیں جو خاک کے

یہ پربتوں میں ره چکے

گیت سبھی یہ کہہ چکے

مٹھی بھر سکون سے

کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا

کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا

مرنے کا غم نہیں ہے تو جینے کی آس کیا

جب تجھ کو مجھ سے دور ہی رہنا پسند ہے

سائے کی طرح رہتا ہے پھر آس پاس کیا

تجھ سے بچھڑ کے ہم تو یہی سوچتے رہے

یہ گردش حیات نہ آئے گی راس کیا

حادثے پر کتر گئے شاید

حادثے پر کتر گئے شاید

حوصلے دل کے مر گئے شاید

خُود میں ڈُوبے تو یُوں ہُوا محسوس

ہم کنوئیں میں اُتر گئے شاید

سخت لہجے میں گُفتگو ہم سے

دن تمہارے بھی بھر گئے شاید

جھوٹ کے آب میں پکاتا ہوں

جُھوٹ کے آب میں پکاتا ہوں

دال کو اس طرح گلاتا ہوں

شاعری مُبتدانہ کرتا ہوں

خُود کو باون گزا سمجھتا ہوں

کام سے جان میں بچاتا ہوں

ٹیڑھا آنگن سدا بتاتا ہوں

مجھ سے تنہائی میں وحشت یوں جڑی رہتی ہے

 مجھ سے تنہائی میں وحشت یوں جڑی رہتی ہے

جیسے دِیوار سے تصویر لگی رہتی ہے

ہم فرشتہ ہی کہیں گے اسے، انسان نہیں

آنکھ جس کی تِری محفل میں جُھکی رہتی ہے

میں تمہیں دل میں جگہ دے دوں مگر ایک سوال

کہیں شیشے کے قفس میں بھی پری رہتی ہے؟

درد میں ڈوب کے پھر درد کا درماں نہ رہا

 درد میں ڈوب کے پھر درد کا درماں نہ رہا

"زندگی! اب تِرا کوئی بھی عنواں نہ رہا"

زخم رستے ہی رہے خوگر نہ ہوئی میں ان کی

اس کی چارہ گری کا کوئی بھی امکاں نہ رہا

کہکشاں جب سے بچھائی ہے تِری راہوں میں

پھر جہاں بھر میں کوئی تم سا تو ذیشاں نہ رہا

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

موجود دل جگر ہیں دے ابروؤں کو جنبش

دہرہ نشانہ بھی ہے دوہری کمان والے

یہ چپکے چپکے باتیں نظریں بچا بچا کر

رکھتے ہیں آنکھ ہم بھی ہم بھی ہیں کان والے

اب گرچہ نہیں اس سے ملاقات مسلسل

 اب گرچہ نہیں اس سے ملاقات مسلسل

برسوں سے تسلسل میں ہے وہ رات مسلسل

حیران ہوں کیوں اتنا مجھے چاہا ہے تم نے

دوہراتی رہی وہ یہی اک بات مسلسل

ہے آج بھی تنہائی مِری ذات کا حصہ

اس لمحے تلک ہیں وہی حالات مسلسل

وہ مجھ سے جل کے یہ بولے کہ ہو ترقی میں

 وہ مجھ سے جل کے یہ بولے کہ ہو ترقی میں

ہضم یہ بات نہ ہو تم رہو ترقی میں

انہیں زوال کا کھٹکا کبھی نہیں ہوتا

خدا کی یاد جگاتے ہیں جو ترقی میں

یقین ہے کہ عقِیدت عروج پائے گی

نگاہیں پائیں گی جب آپ کو ترقی میں

جن سے پردہ نہیں ان لوگوں سے پردہ کر کے

 جن سے پردہ نہیں ان لوگوں سے پردہ کر کے

دیکھتی تھی وہ مجھے آئینہ ترچھا کر کے

میں نے اتنی کسی ویرانی کی خدمت کی ہے

مجھ کو یہ بُڑھیا بلانے لگی بیٹا کر کے

خالی خطرے سے نہیں ہے یہ فقیری کی گلی

اک طوائف بھی یہاں رہتی ہے دنیا کر کے

Wednesday 4 January 2023

موت سے بھی بڑی قیامت ہے

 موت سے بھی بڑی قیامت ہے

سچ کہوں؛ زندگی قیامت ہے

دُکھ سے کُھلتی نہیں ہیں آنکھیں اب

خواب کی یہ گھڑی قیامت ہے

صاف دِکھنے لگے سبھی چہرے

اب یہی روشنی قیامت ہے

کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے

 کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے

اپنی تصویر بدلنا ہے مجھے

جس نے پرچھائیں کو خوشید کیا

اسی شعلے میں پگھلنا ہے مجھے

ہے تِرے لمس کی خواہش مجھ میں

زرد موسم کو بدلنا ہے مجھے

ہے یہ پیری بھی اک خوشی مجھ میں

 ہے یہ پیری بھی اک خوشی مجھ میں

لوٹ آئی ہے کم سِنی مجھ میں

بات شیریں سخن کی کرتا ہوں

گُھلتی جاتی ہے چاشنی مجھ میں

تیری یادوں کے ساتھ آتی ہے

تیرے قدموں کی چاپ سی مجھ میں

نئے کچھ بھی نہیں اقدام اپنے

 نئے کچھ بھی نہیں اقدام اپنے

وہی معمول کے ہیں کام اپنے

وہ مہکاتے ہیں صبح و شام اپنے

بہت پُر نور ہیں گُلفام اپنے

نگاہیں ہو گئی تھیں اس پہ صدقے

نہارے اس نے یوں اندام اپنے

خلش زخم تمنا کو مٹانے آئے

 خلشِ زخمِ تمنا کو مٹانے آئے

بہتے پانی میں کوئی پھول بہانے آئے

اس سے پہلے کہ تِرا دکھ مجھے پتھر کر دے

اپنی آواز سے کہہ مجھ کو رُلانے آئے

پھر میں دیکھوں گا مِرے ساتھ کوئی کتنا ہے

راہ میں جب کبھی دُشوار زمانے آئے

غموں کی دل پہ آرائش بہت ہے

 غموں کی دل پہ آرائش بہت ہے

محبت! تیری فہمائش بہت ہے

اُداسی گُھل چکی ہے روح میں شاید

بدن پر اس کے زیبائش بہت ہے

محبت کیسے اپنا گھر بسائے

یہاں ہر سمت آلائش بہت ہے

کیا کہوں اپنے ہی دیس میں ہم ہوئے دربدر

 کیا کہوں

اپنے ہی دیس میں ہم ہوئے دربدر

سازشیں ظالموں کی ہوئیں کارگر

اپنے اپنے گھروں سے نکالے گئے

کھولتی آگ میں لوگ ڈالے گئے 

خوب ماتم کروں ایسی تعلیم پر

تو ہر زوائیے سے دیکھ لے سمجھ لے

 قوتِ خیال


تُو ہر زوائیے سے دیکھ لے

سمجھ لے

قوتِ خیال

شعور کو پلٹ کر کبھی

لا شعور میں ذرا جھانک

مل کر یار بنا دیتے ہیں

 مل کر یار بنا دیتے ہیں

دن تہوار بنا دیتے ہیں

ہوتے ہیں کچھ کام ایسے بھی

جو بے کار بنا دیتے ہیں

جادوگر ہیں دنیا والے

دو کو چار بنا دیتے ہیں

اس دنیا میں تنہا ہوں

 اس دنیا میں تنہا ہوں

میں بے نام سا چہرہ ہوں

کیسی باتیں کرتے ہو

میں بھی تمہارا حصہ ہوں

اس کی گلی تک جو جائے

میں اک ایسا رستا ہوں

نور چراغ راہ سے آگے کی بات کر

 نورِ چراغِ راہ سے آگے کی بات کر

یعنی حدِ  نگاہ سے آگے کی بات کر

منصب کے اور سلسلے بھی گفتگو میں لا

اس جُبہ و کلاہ سے آگے کی بات کر

افلاک سے بھی پار کا درپیش ہے سفر 

تاروں کی اس سپاہ سے آگے کی بات کر

چھ دن چھ راتوں کی کہانی

 چھ دن چھ راتوں کی کہانی

اس پہ کُن فیکوں کا دعویٰ

کس کو چھوڑیں

کون سی مانیں

کس چھلنی میں دعویٰ چھانیں

سچ کو پرکھیں

دل ہے اپنا نہ اب جگر درپیش

 دل ہے اپنا نہ اب جگر درپیش

ہے تِری چشم معتبر درپیش

لوگ بیمار کیوں نہ پڑ جاتے

جب کہ تھا حسن چارہ گر درپیش

میں ہوا چاہتا تھا بے قابو

زندگی ہو گئی مگر درپیش

اک میں ترے درباد میں اکثر نہیں آتا

 اک میں تِرے درباد میں اکثر نہیں آتا

آتا ہوں تو اس دن مِرا نمبر نہیں آتا

پہلے تو زرا ہنستا ہوں اس نام کو سن کر

فوراً ہی مِرے ذہن میں خنجر نہیں آتا

یارو مجھے اس چشمِ تغافل میں نہ ڈھونڈو

گھر کی کسی تصویر میں نوکر نہیں آتا

یہ شب مجھ سے کنارہ کر رہی ہے

 یہ شب مجھ سے کنارہ کر رہی ہے

بڑا گھاٹے کا سودا کر رہی ہے

نہ پوچھو میری رُسوائی کا عالم

چلو، خلقت تماشا کر رہی ہے

ہجومِ شہرِ نا پُرساں میں ہم کو

محبت کیسے  تنہا کر رہی ہے

Tuesday 3 January 2023

کسی طرح سے جہاں میں نہ غم کی بات چلے

 کسی طرح سے جہاں میں نہ غم کی بات چلے

رہِ وفا میں اگر تُو بھی میرے ساتھ چلے

تمہارے ساتھ سفر میں بہاریں ساتھ رہیں

ہمارے ساتھ مگر صرف حادثات چلے

تمام عمر چلی ہوں اجل کے سائے میں

خدا کرے کہ مِرے ساتھ اب حیات چلے

ہر اک سمت ظلم و ستم دیکھتے ہیں

 ہر اک سمت ظلم و ستم دیکھتے ہیں

ہم انسانیت کے الم دیکھتے ہیں

جو پرچم اٹھائے ہیں انسانیت کا

ہم ان میں بھی انسان کم دیکھتے ہیں

سسکتی ہے انسانیت آج پھر بھی

کسی کو کسی کا نہ ہم دیکھتے ہیں

رات بھر گردشِ افلاک کو تکتے رہنا

 رات بھر گردشِ افلاک کو تکتے رہنا

یار کے نام کی تسبیح کو جپتے رہنا

ایک درویش نے بولا تھا یہ غم ٹھیک نہیں

ایک لیلیٰ نے دعا دی تھی، تڑپتے رہنا

میں کہ اس شخص کے صدقے کا دیا ہوں مولا

اور مِرا عشق ہے محراب میں جلتے رہنا

یہ دنیا کا چلن ہے اور میں ہوں

 یہ دنیا کا چلن ہے، اور میں ہوں

عجب سی اک گھٹن ہے اور میں ہوں

شبِ فرقت ہے، تیری یاد بھی ہے

غموں کی انجمن ہے, اور میں ہوں

جو ہیں پردیس میں، دولت کمائیں

یہاں حُب وطن ہے, اور میں ہوں

نہ جانے کس کا ہو کے ہمسفر گیا ہو گا

 نہ جانے کس کا ہو کے ہمسفر گیا ہو گا

یہ سوچتا ہوں کہ وہ کس نگر گیا ہو گا

جفا کی تیغ کو کاٹا ہو جس نے شہ رگ سے

کمالِ اوج پہ اس کا ہی سر گیا ہو گا

کسی سخن پہ ضرورت نہیں کہ للچائیں

ہمارا کاسہ نجف میں ہی بھر گیا ہو گا

خواب جیسی ہے جو تعبیر میں آئی ہوئی ہے

خواب جیسی ہے جو تعبیر میں آئی ہوئی ہے

تُو مِری وادی کشمیر میں آئی ہوئی ہے

اپنے بچوں کو کفن دیتے ہیں خود ہاتھوں سے

یہ روایت ہمیں جاگیر میں آئی ہوئی ہے

یا تو کشمیر کی اک لختِ جگر ہے جنت

یا وہ جنت ہے جو کشمیر میں آئی ہوئی ہے

ایک اک شعر سنایا اسے تفسیر کے ساتھ

ایک اک شعر سُنایا اُسے تفسِیر کے ساتھ

کل بہت بات ہوئی تھی تِری تصوِیر کے ساتھ

مُدتوں بعد جو آیا ہے مِرے خط کا جواب

اس نے بھیجا ہے مجھے پُھول بھی تحرِیر کے ساتھ

ایک ہی عشق کِیا، اور کِیا ایسا عشق

جیسے غالب نے کِیا میر تقی مِیر کے ساتھ

برا ہوا پر لگا نہیں کہ برا ہوا ہے

 برا ہوا پر لگا نہیں کہ برا ہوا ہے

یہ کس سلیقے سے کوئی ہم سے جدا ہوا ہے

جو وہ نہیں ہے تو اس کی خوشبو کہاں سے آئی

یہاں پہ کوئی ضرور اس سے ملا ہوا ہے

تمہیں اگر آ لگا تو گھائل نہیں کرے گا

یہ تیر پہلے ہمارے دل پر چلا ہوا ہے

کتنے لوگوں کے لیے دست دعا بنتا ہے

 کتنے لوگوں کے لیے دستِ دعا بنتا ہے

حبس ماحول میں جو شخص ہوا بنتا ہے

اتنا جلتا ہوں تِرے ہجر میں شب بھر اے دوست

میرا ہمزاد یہاں صرف دِیا بنتا ہے

میرے مولا تِری دنیا بھی نہیں راس مجھے

جو بھی اٹھتا ہے وہی میرا خدا بنتا ہے

Monday 2 January 2023

یہ نیا سال کسی اور ہی سمت لے کے جائے گا ہمیں

 یہ نیا سال

کسی اور ہی سمت

لے کے جائے گا ہمیں

یہ نیا دور

کسی شخص کا بننا بھی نہیں

اس نئے دور میں

کوئی بھی جرم ہو اس سے بہم نکلتا ہے

 کوئی بھی جرم ہو، اس سے بہم نکلتا ہے

وہ ایک شخص جو گھر سے بھی کم نکلتا ہے

کسی کی آنکھ تو روئی ہے غم زدہ ہو کر

کہیں بھی دشت ہو، ذروں سے نم نکلتا ہے

ادھر ہوا کی سلاست، مکاں اڑاتی ہے

ادھر وہ حبس کا عالم، کہ دم نکلتا ہے

وقت کا کیا ہے مرے یار بدل جاتا ہے

 وقت کا کیا ہے مرے یار، بدل جاتا ہے

آگ لگتی ہے تو بازار بدل جاتا ہے

ہم درختوں کے تو پھل بھی نہیں بدلے اب تک

ان پرندوں کا تو گھر بار بدل جاتا ہے

خواب ہر بار صدائیں دئیے رہ جاتے ہیں

اک ارادہ ہے کہ ہر بار بدل جاتا ہے

یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے

 یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے

اس اعتبار سے دل درد کا مکاں ہی تو ہے

نہیں ہے پرسش احوال کے لیے کوئی

بس ایک مجمع ارواح رفتگاں ہی تو ہے

یہ داستان تمنا عجب سہی پھر بھی

بھلا ہی دے گا زمانہ کہ داستاں ہی تو ہے

اس نے کہا تھا مجھ کو جانا ہے

 ایک اتفاقی موت کی روداد


سراسر اتفاقی موت تھی

اس نے کہا تھا مجھ کو جانا ہے

سو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے

سراسر اتفاقاً

پاؤں چلنے کے لیے ہوتے ہیں

Sunday 1 January 2023

ہجوم غم ہے ابھی اور خوشی ہے تھوڑی سی

 ہجومِ غم ہے ابھی اور خوشی ہے تھوڑی سی

چلے بھی آئے کہ اب زندگی ہے تھوڑی سی

خزاں کا دور سہی پھر بھی اے چمن والو

فسردہ گُل ہیں مگر تازگی ہے تھوڑی سی

ہمارے غم کا مداوا تو ہو نہیں سکتا

یہ اور بات خوشی بھی ملی ہے تھوڑی سی

اسے بھلانے کے جتن بھی رائیگاں معلوم ہوتے ہیں

 جتن


میں نے عمر بھر

جسے یاد کیا 

اب عمر کے 

ان لمحوں  میں 

اسے بھلانے کے 

جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا

جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا

یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا کیا

ستارے دھول اور مٹی بنیں گے

سمندر آسماں ہو جائے گا کیا

تمہارا عشق تو لا حاصلی ہے

یہ غم بھی رائیگاں ہو جائے گا کیا

اب جدھر بھی جاتے ہیں آدمی کو پاتے ہیں

 اب جدھر بھی جاتے ہیں


پہلے ایسا ہوتا تھا

بھانت بھانت کے بندر

شہر کی فصیلوں پر

محفلیں جماتے تھے

گھر میں کود آتے تھے

شکریہ یار دل دکھانے کا

 شکریہ یار! دل دُکھانے کا

پہلے یہ کام تھا زمانے کا

روز ہوتا ہے سامنا دکھ سے

جیسے اک فرد ہو گھرانے کا

تو مجھے گنگنا اکیلے میں

انترا ہوں اداس گانے کا

سال شروع ہونے پر میں نے سنی تری آواز

 سال شروع ہونے پر میں نے 

سُنی تری آواز 

اور کیا آغاز

رات تِری آواز کی سرسبز و شاداب فضا میں 

وصل تِرے کے دِیپ جلے 

کچھ ایسے تیز ہوا میں 

ہجر میں جتنا فاصلہ ہو گا

 ہجر میں جتنا فاصلہ ہو گا

اک دِیا پھر بھی جل رہا ہو گا

کس قدر شوقِ خود نمائی ہے

آئینہ خود پہ ہنس رہا ہو گا

حادثہ کل کوئی ہوا تو تھا

شور مٹی میں دب گیا ہو گا

لوٹ آئے گا دیکھنا مرے دوست

 لوٹ آئے گا دیکھنا مِرے دوست

جگمگائے گا راستہ مرے دوست

حضرتِ داغ کے میں سائے میں ہوں

حضرتِ جون ایلیا مرے دوست

کچھ گنہ گار بھی ہیں یار مِرے

اور ہیں چند پارسا مرے دوست

دھو لیا داغ ہم نے دامن کا

 دھو لیا داغ ہم نے دامن کا

شکریہ، آنسوؤں کے ساون کا

زندگی بھر نہ ہو سکا پورا

خواب اس آرزو کی دلہن کا

جس سے ملے وہ خود میں الجھا ہے

ہر کوئی ہے شکار الجمن کا

بدن میں چبھن اور دل جل رہا ہے

 بدن میں چبھن اور دل جل رہا ہے

کہ سینے میں کوئی ستم پل رہا ہے

نہیں شے کو حاصل زمانے میں دائم

تغیّر جہاں میں مسلسل رہا ہے

چلو گھر چلیں ہم کہ اب رات آئی

جوانی کا سورج بھی اب ڈھل رہا ہے

گزرے جو حوادث نہیں آئیں گے گماں میں

 گزرے جو حوادث نہیں آئیں گے گماں میں

ہے خاک بدن چاک جگر عشق بتاں میں

استاد کسی اور کو خاطر میں نہ لائے

اِترائے سرِ عام کہ ہوں اہلِ زباں میں

ہر لفظ ہے اشعار کا آواز دلوں کی

ہے نقص کہیں بول مِرے طرزِ بیاں میں