یہ دنیا کا چلن ہے، اور میں ہوں
عجب سی اک گھٹن ہے اور میں ہوں
شبِ فرقت ہے، تیری یاد بھی ہے
غموں کی انجمن ہے, اور میں ہوں
جو ہیں پردیس میں، دولت کمائیں
یہاں حُب وطن ہے, اور میں ہوں
وہی سچ بولنے کی ضد پرانی
وہی دار و رسن ہے اور میں ہوں
ہیں میرے ساتھ بس اعمال میرے
بدن پر اک کفن ہے، اور میں ہوں
درونِ راہ و منزل کیا بتاؤں
مِرا دیوانہ پن ہے، اور میں ہوں
زمینی مسئلے وہ بھی غزل میں
یہی طرزِ سخن ہے اور میں ہوں
اختر ہاشمی
No comments:
Post a Comment