Monday, 9 January 2023

جب شام ڈھلے ہجر ترا مجھ سے ملا تھا

جب شام ڈھلے ہِجر تِرا مجھ سے مِلا تھا

میں اشکوں کے جلتے ہوئے خیموں میں کھڑا تھا

انعام زدہ چہروں پہ خِفت تھی خوشی کی

دربار میں اک تن سے جُدا سر بھی پڑا تھا

یہ دریا تِرے ساتھ مجھے لے ہی چلے تھے

صد شکر سمندر نے مجھے تھام لیا تھا

میں خالی تہی داماں، مضافات کا باسی

گاؤں کے مقدر سے تِرا شہر بڑا تھا

آیات کو نیزوں پہ چڑھا کر تو نہ پوچھو

زنجیر زنی کرتے ہوئے شہر میں کیا تھا

جو آج مِرے درپئے آزار ہوا ہے

یہ غم تو مِرے خون کے ٹکڑوں پہ پلا تھا

اس شخص کو آزادی مِری مار نہ ڈالے

جو روزنِ زِنداں سے مجھے جھانک رہا تھا


نصیر بلوچ

No comments:

Post a Comment