لہو لہو آرزو بدن کا لحاف ہو گا
وہ کتنا بُزدل ہے آج یہ انکشاف ہو گا
مِری ہر اک بات تھی حقائق کی روشنی میں
یہ جانتا تھا زمانہ میرے خلاف ہو گا
حقیقتوں کے چراغ ہر سو جلا کے رکھنا
مجھے یقیں ہے کہ جُھوٹ کا انعطاف ہو گا
یہ غم نہیں ہے شناخت اپنی میں کھو چکا ہوں
تمہاری ہستی سے کب مجھے انحراف ہو گا
نہ کھوج خود کو پرانے کل کی کہانیوں میں
پرانا کل تو شکست کا اعتراف ہو گا
ہماری باتوں میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے
ہماری باتوں سے کب اسے اختلاف ہو گا
رموزِ عالم پہ دسترس اس کو ہو گی حاصل
وہ شخص کردار جس کا شفاف و صاف ہو گا
سزا کے ڈر سے عبث تو گھبرا رہا ہے انجم
قصور پہلا تو ہر کسی کو معاف ہو گا
آنند سروپ انجم
No comments:
Post a Comment