Wednesday, 11 January 2023

بے آواز جگراتے کاغذوں میں اترے ہیں

 بے آواز جگراتے


بے آواز جگراتے

کاغذوں میں اترے ہیں

بے زبان جگراتے

کون، کب، کہاں، کیسے

کیا حساب رکھے گا

کون آ کے پوچھے گا

نیند، خواب، پلکیں اور آنکھ کی جو سرخی ہے

کہاں کھو گئیں آخری

کیوں یہ پتھرائی پتلیاں تھرتھرا نہیں سکتیں

کون دھیان رکھے گا

کتنی جگی اور کتنی رات بے زبان کاٹی ہے

بے حساب جگراتے

بے قرار جگراتے

نیند کی خواہش میں

بے آواز پُتلیوں نے

کب، کن پوروں کو کس طرح پکارا ہے

اور کس طرح کئی دن کا ہجر اک شب میں گزارا ہے

چھوڑو سارے قصوں کو

پھینکوں ساری تفصیلیں

پھاڑ دو سبھی کاغذ

اور پڑ کے سو جاؤ

ہجر تو مسلط ہے

کب جانے والا ہے

کوئی نہیں آئے گا

نہ تمہیں ستائے گا

نہ ہی نیند کی کوئی لوری

کان میں گنگنائے گا

پڑ کے اب سو جاؤ

نیند تم ذرا لے لو


عظمیٰ طور

No comments:

Post a Comment