تیرے ساتھ گزرے دنوں کی کوئی ایک دھندلی سی تصویر
جب بھی کبھی سامنے آئے گی
تو ہمیں ایک دعا تھامنے آئے گی
بڑھاپے کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے
تیری بے لوث بانہوں کے گھیرے نہیں بھول پائیں گے ہم
ہم کو تیرے توسط سے ہنستے ہوئے جو ملے تھے
وہ چہرے نہیں بھول پائیں گے ہم
تیرے پہلو میں لیٹے ہوؤں کا عجب کرب ہے
جو تجھے رات بھر اپنی ویران آنکھوں سے تکتے تھے
اور تیرے شاداب شانوں پر سر رکھ کے
مرنے کی خواہش میں جیتے رہے
پر تیرے لمس کا ان کو کوئی اشارہ میسر نہیں تھا
مگر اس جہاں کا کوئی ایک حصہ
انہیں تیرے بستر سے بہتر نہیں تھا
پر محبت کو اس سب سے کوئی علاقہ نہیں
ایک دکھ تو بہرحال ہم اپنے سینوں میں لے کر مریں گے
کہ ہم نے محبت کے دعوے کیے
مگر تیرے ماتھے میں سندور ٹانکا نہیں
اس سے کیا فرق پڑتا ہے
ہم دور ہیں تجھ سے یا پاس ہیں
ہم کوئی آدمی تو نہیں
ہم تو احساس ہیں
جو رہے تو ہمیشہ رہیں گے
اور گئے تو کبھی مڑ کے واپس نہیں آئیں گے
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment