Monday, 9 January 2023

نم اس لیے آنکھوں میں نمو یاب نہیں ہے

 نم اس لیے آنکھوں میں نمویاب نہیں ہے

مجھ ریت کے دریا میں کہیں آب نہیں ہے

نیندوں کی طلب گار تو ہے آنکھ ہماری

بس مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خواب نہیں ہے

بازار میں بھی ہاتھ پکڑ لیتا ہے میرا

یہ عشق ابھی واقفِ آداب نہیں ہے

تُو وصل کا موسم ہے سدا سبز رہے گا

میں ہجر کا وہ کھیت جو سیراب نہیں ہے

یہ لوگ تِرے عشق سے محروم ہیں مالک

اور اس سے بڑا دکھ، کوئی بیتاب نہیں ہے

کس رنج نے داغا ہے تِرے حسن پہ بوسہ؟

آنکھوں میں وہ پہلی سی تب و تاب نہیں ہے

مشکل ہے کہ اب کوئی پسر باپ پہ جائے

رستم تو بہت ہیں، کوئی سہراب نہیں ہے

یہ دکھ بھی بڑا دکھ ہے کہ اس شہر میں شیران

احباب تو ہیں،۔ حلقۂ احباب نہیں ہے


علی شیران

No comments:

Post a Comment