نم اس لیے آنکھوں میں نمویاب نہیں ہے
مجھ ریت کے دریا میں کہیں آب نہیں ہے
نیندوں کی طلب گار تو ہے آنکھ ہماری
بس مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خواب نہیں ہے
بازار میں بھی ہاتھ پکڑ لیتا ہے میرا
یہ عشق ابھی واقفِ آداب نہیں ہے
تُو وصل کا موسم ہے سدا سبز رہے گا
میں ہجر کا وہ کھیت جو سیراب نہیں ہے
یہ لوگ تِرے عشق سے محروم ہیں مالک
اور اس سے بڑا دکھ، کوئی بیتاب نہیں ہے
کس رنج نے داغا ہے تِرے حسن پہ بوسہ؟
آنکھوں میں وہ پہلی سی تب و تاب نہیں ہے
مشکل ہے کہ اب کوئی پسر باپ پہ جائے
رستم تو بہت ہیں، کوئی سہراب نہیں ہے
یہ دکھ بھی بڑا دکھ ہے کہ اس شہر میں شیران
احباب تو ہیں،۔ حلقۂ احباب نہیں ہے
علی شیران
No comments:
Post a Comment