طائرِ اشک جو آنکھوں میں اتارا جاتا
دشت کا دشت تمناؤں پہ وارا جاتا
خواہشِ وصل، شبِ تار گلے ملتے ہی
دل کی بستی سے تِرا ہجر گزارا جاتا
اپنا جو کچھ تھا درِ یار پہ چھوڑ آیا ہوں
جاں بچا لیتا مگر یار کا یارا جاتا
حُجرۂ دل میں تِرا وصل سہارا کر کے
پال کر ضبط غمِ زیست کو مارا جاتا
اپنی پلکوں پہ تِری یاد سجائی میں نے
بھول جاتا تو مِرا ایک سہارا جاتا
چاہنے والے جہاں اس نے بلائے تھے امین
کاش! میرا بھی وہاں نام پکارا جاتا
امین اوڈیرائی
No comments:
Post a Comment