Monday, 9 January 2023

دیپ جلتا ہوا دامن سے بجھایا ہم نے

 دِیپ جلتا ہوا دامن سے بجھایا ہم نے 

رات کو رقص کیا، ہجر منایا ہم نے 

گھر بنانے کی تمنا تھی ادھوری ہی رہی 

ایک نقشہ تو بہرحال بنایا ہم نے 

روٹھنے والا کسی طور بھی مانا ہی نہیں 

اس کو اک گیت کا مُکھڑا بھی سنایا ہم نے 

ایک دو چار سہی جھیل میں کنکر پھینکے 

اپنے ہونے کا تو احساس دلایا ہم نے 

یہ جو منصور ہیں، تبریز ہیں مرتے ہی نہیں 

کھال کھینچی تو کبھی دار چڑھایا ہم نے 

کتنا مشکل تھا فرشتے بھی گریزاں ہی رہے 

یہ تِرا بارِ امانت بھی اٹھایا ہم نے 


افتخار شاہد 

No comments:

Post a Comment