Tuesday, 3 January 2023

نہ جانے کس کا ہو کے ہمسفر گیا ہو گا

 نہ جانے کس کا ہو کے ہمسفر گیا ہو گا

یہ سوچتا ہوں کہ وہ کس نگر گیا ہو گا

جفا کی تیغ کو کاٹا ہو جس نے شہ رگ سے

کمالِ اوج پہ اس کا ہی سر گیا ہو گا

کسی سخن پہ ضرورت نہیں کہ للچائیں

ہمارا کاسہ نجف میں ہی بھر گیا ہو گا

تمہارے لمس کی نرمی جسے ملی ہو گی

مجھے یقیں ہے وہ خود سے مُکر گیا ہو گا

کسے تلاشتے ہو، دیکھو اپنے ماضی میں

تمہارے جانے سے وہ شخص مر گیا ہو گا

سلامی دیتا ہوا قافلہ بہاروں کا

تمہارے ہاتھ پہ کچھ پھول دھر گیا ہو گا

شجر کی آگہی نے کر دیا مجھے پاگل

شعور لا سے ہی پہلے بکھر گیا ہو گا


مزمل عباس شجر

No comments:

Post a Comment