نہ جانے کس کا ہو کے ہمسفر گیا ہو گا
یہ سوچتا ہوں کہ وہ کس نگر گیا ہو گا
جفا کی تیغ کو کاٹا ہو جس نے شہ رگ سے
کمالِ اوج پہ اس کا ہی سر گیا ہو گا
کسی سخن پہ ضرورت نہیں کہ للچائیں
ہمارا کاسہ نجف میں ہی بھر گیا ہو گا
تمہارے لمس کی نرمی جسے ملی ہو گی
مجھے یقیں ہے وہ خود سے مُکر گیا ہو گا
کسے تلاشتے ہو، دیکھو اپنے ماضی میں
تمہارے جانے سے وہ شخص مر گیا ہو گا
سلامی دیتا ہوا قافلہ بہاروں کا
تمہارے ہاتھ پہ کچھ پھول دھر گیا ہو گا
شجر کی آگہی نے کر دیا مجھے پاگل
شعور لا سے ہی پہلے بکھر گیا ہو گا
مزمل عباس شجر
No comments:
Post a Comment