تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
بچے نادان ہیں پتھر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
جن جزیروں کو یہ جاتے ہیں قناعت کر لو
سوچتے رہنے میں لنگر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
اعتماد ان پہ کرو خدشہ ہے یہ بھی ورنہ
دستِ ساحل سے سمندر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
ان کے ہاتھوں کی طنابیں ہیں زمیں پر لپٹی
شہر کی آنکھ سے منظر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
عہد بھی ان ہی کا ہم ذہن ہے سو چپ ہی رہیں
اگلی صدیوں کے کیلنڈر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
طارق جامی
No comments:
Post a Comment