بہت دور ایک گاؤں
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں میرے بچپن کے جگنو
ابھی تک گھنے پیپلوں پر چمکتے ہیں
میری زباں سے گِرے توتلے لفظ اب بھی
کئی سال سے غیر آباد گھر کی
پرانی، جُھکی، آخری سانس لیتی ہوئی
سیڑھیوں پر پڑے ہیں
کہ جیسے خموشی کے سینے میں خنجر گڑے ہیں
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں شام ہوتے ہی تاریکیاں پھیل جاتی ہیں
آٹے کی چکی کی تُک تُک
پرندوں کی ڈاریں
کہیں دور جاتی ہوئی
گھنٹیوں کی صدائیں
سبھی ایک خاموش لے میں بدل کر
سیہ رات کی جھیل میں ڈوبتی ہیں
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں لالٹینوں کی مدھم لرزتی ہوئی روشنی میں
سبق یاد کرتے ہوئے
میں نے اچھے دنوں کے کئی خواب دیکھے
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں میری پہلی محبت کی پرچھائیاں ہیں
اداسی میں ڈوبے ہوئے راستے
کھیت، اسکول، جوہڑ، درختوں کے جھرمٹ
پُراسرار تنہائیاں ہیں
بہت دور گاؤں ہے میرا
جہاں چاند راتوں میں خاموش گلیوں سے
بوڑھے درختوں کی شاخوں سے
سوئے ہوئے آنگنوں سے گزر کر
ہوا اب بھی آتی ہے
چُپکے سے مجھ کو بُلاتی ہے
لیکن نہ پا کر مجھے لوٹ جاتی ہے
عادت ہوا کی ابھی تک وہی ہے
کہ فطرت ہوا کی ابھی تک وہی ہے
مگر زندگی نے مجھے روند ڈالا ہے
شہروں کی بے راستہ بھیڑ میں
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment