Friday 6 January 2023

یوں جھکاتے ہی ترے در پہ جبیں کانپتی ہے

 یوں جھکاتے ہی تِرے در پہ جبیں کانپتی ہے

جیسے بھونچال میں کچھ پل کو زمیں کانپتی ہے

جب بھی ڈرتا ہوں مِرا جھوٹ نہ پکڑا جائے

ہائے، کم بخت! یہ آواز وہیں کانپتی ہے

اس نے دیکھا ہے معلم کی جو آنکھوں میں شرر

چھپ کے بیٹھی ہے وہ مکتب میں کہیں، کانپتی ہے

دیکھنے میں تمہیں لگتا ہے وہ ادنیٰ، لیکن

خاک بھی زیرِ کفِ خاک نشیں کانپتی ہے

ہم وہ کرتے ہیں خطائیں کہ زمیں کانپ اٹھے

پردہ رکھتی ہے ہمارا جو نہیں کانپتی ہے

وہ کھڑی رہتی ہے جس پر ہو گماں گرنے کا

جس بھی دیوار پہ کرتا ہوں یقیں، کانپتی ہے

ہر گزرتے ہوئے لمحے یہ گھڑی کی سوئی

مطمئن پا کے ہمیں اپنے تئیں کانپتی ہے


جاوید جدون

No comments:

Post a Comment