میں دلگرفتہ ہوں تازہ غموں کی کِن مِن سے
تمہاری یاد بھی آئی نہیں کئی دن سے
ملا کے دیکھ چکی وہ پری سبھی نمبر
کُھلا نہ لاک مِرے دل کا تو کسی پِن سے
بہت سے خواب سجائیں گے تیری قربت کے
ستم کی مشق کریں گے دماغِ کمسن سے
مِرے دراز سے خالی لفافہ نکلا اور
تِرے خطوط برامد ہوئے ہیں اک بِن سے
تِرے عدم میں تِرے ہی خلاف بکتے ہیں
دعا سلام ہے تیری یہاں پہ جن جن سے
میں مطمئن تو ہوا تھا جواب سن کے تِرا
شکوک پیدا ہوئے دل میں تیرے لیکن سے
عجب نہیں کہ خماری تھی اس کے ہونٹوں میں
کسی کو چائے ملی ہے شراب کے ٹِن سے؟
احمد زوہیب
No comments:
Post a Comment