کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے
اپنی تصویر بدلنا ہے مجھے
جس نے پرچھائیں کو خوشید کیا
اسی شعلے میں پگھلنا ہے مجھے
ہے تِرے لمس کی خواہش مجھ میں
زرد موسم کو بدلنا ہے مجھے
تیرے چہرے کا تعاقب ہے عجب
عمر بھر نیند میں چلنا ہے مجھے
میں چراغ ایسا کہ اک تیرے لیے
گھر کی دہلیز پہ جلنا ہے مجھے
شام رستے میں کھڑی ہے جاذب
اور صحرا سے نکلنا ہے مجھے
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment