Wednesday, 4 January 2023

کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے

 کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے

اپنی تصویر بدلنا ہے مجھے

جس نے پرچھائیں کو خوشید کیا

اسی شعلے میں پگھلنا ہے مجھے

ہے تِرے لمس کی خواہش مجھ میں

زرد موسم کو بدلنا ہے مجھے

تیرے چہرے کا تعاقب ہے عجب

عمر بھر نیند میں چلنا ہے مجھے

میں چراغ ایسا کہ اک تیرے لیے

گھر کی دہلیز پہ جلنا ہے مجھے

شام رستے میں کھڑی ہے جاذب

اور صحرا سے نکلنا ہے مجھے


جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment