اس دنیا میں تنہا ہوں
میں بے نام سا چہرہ ہوں
کیسی باتیں کرتے ہو
میں بھی تمہارا حصہ ہوں
اس کی گلی تک جو جائے
میں اک ایسا رستا ہوں
آنسو کی اک بوند ہوں میں
اور آنکھوں میں رہتا ہوں
در خود ہی کھل جاتا ہے
میں کب دستک دیتا ہوں
تجھ کو بھی کچھ جلدی ہے
میں بھی جانے والا ہوں
آنے والے وقتوں کا
میں اک گزرا لمحہ ہوں
مجھ پر جھوٹ کی تہمت ہے
یعنی میں بھی سچا ہوں
پھر سے میرا ہاتھ پکڑ
میں تو دیکھا بھالا ہوں
آنکھیں سرخ تو ہوں گی نا
خوابوں کا رکھوالا ہوں
عمر فرحت
No comments:
Post a Comment