خلشِ زخمِ تمنا کو مٹانے آئے
بہتے پانی میں کوئی پھول بہانے آئے
اس سے پہلے کہ تِرا دکھ مجھے پتھر کر دے
اپنی آواز سے کہہ مجھ کو رُلانے آئے
پھر میں دیکھوں گا مِرے ساتھ کوئی کتنا ہے
راہ میں جب کبھی دُشوار زمانے آئے
کتنے زخموں نے مجھے توڑنا چاہا ہے یہاں
کتنے طوفان مِرا نام مٹانے آئے
پہلے وہ خواب میں دیکھے مجھے اپنے ہمراہ
اور پھر مجھ کو وہی خواب سُنانے آئے
میں نہ کہتا تھا کہ دُشوار ہے یہ کارِ وفا
اب بتا اے مِرے دل ہوش ٹھکانے آئے
اک نیا زخم ملا پیار میں زاہد! مجھ کو
اور پھر یاد کئی زخم پُرانے آئے
زاہد شمسی
No comments:
Post a Comment