خرابے میں محبت کا گزر ہے کہ نہیں
خیر دنیا میں بہ اندازۂ شر ہے کہ نہیں
دیکھیے آنکھ مِری آج بھی تر ہے کہ نہیں
دلِ محزوں پہ محبت کا اثر ہے کہ نہیں
منزلیں اور بھی ہیں منزلِ الفت کے سوا
میری آشفتہ مزاجی کو خبر ہے کہ نہیں
اب تو ارباب جنوں کے لیے صحرا ہی نہیں
وجہ تسکین تِری راہگزر ہے کہ نہیں
نگہ ناز کے فتنوں سے خیال آتا ہے
کبھی پیغام رساں ان کی نظر ہے کہ نہیں
با ہمہ جور و جفا زندہ ہے منظر اب تک
اب بھی تُو قائلِ اعجازِ بشر ہے کہ نہیں
منظر دسنوی
سید منظر حسن دسنوی
No comments:
Post a Comment