Wednesday, 11 January 2023

خرابے میں محبت کا گزر ہے کہ نہیں

خرابے میں محبت کا گزر ہے کہ نہیں

خیر دنیا میں بہ اندازۂ شر ہے کہ نہیں

دیکھیے آنکھ مِری آج بھی تر ہے کہ نہیں

دلِ محزوں پہ محبت کا اثر ہے کہ نہیں

منزلیں اور بھی ہیں منزلِ الفت کے سوا

میری آشفتہ مزاجی کو خبر ہے کہ نہیں

اب تو ارباب جنوں کے لیے صحرا ہی نہیں

وجہ تسکین تِری راہگزر ہے کہ نہیں

نگہ ناز کے فتنوں سے خیال آتا ہے

کبھی پیغام رساں ان کی نظر ہے کہ نہیں

با ہمہ جور و جفا زندہ ہے منظر اب تک

اب بھی تُو قائلِ اعجازِ بشر ہے کہ نہیں


منظر دسنوی

سید منظر حسن دسنوی

No comments:

Post a Comment