Sunday, 8 January 2023

سب پہ کھلتا نہیں یہ مسلک ہے

 سب پہ کھلتا نہیں یہ مسلک ہے

عشق والوں کی اپنی بیٹھک ہے

در مقفل ہے زندگانی کا

اور ہاتھوں سے لپٹی دستک ہے

خواب لیٹے ہوئے ہیں پٹڑی پر

آنکھ کی سمت بند پھاٹک ہے

روز اٹھتا ہے اک بقا کا شور

روز بجتی فنا کی ڈھولک ہے

اپنی آواز کے ابھرنے تک

خامشی بھی عجیب گنجلک ہے

یعنی ہر شخص ہے تماشائی

یعنی دنیا بس ایک ناٹک ہے

کاش اک بار وہ کہے ناہید

ہاں محبت ہے اور بیشک ہے


ناہید کیانی

No comments:

Post a Comment