سب پہ کھلتا نہیں یہ مسلک ہے
عشق والوں کی اپنی بیٹھک ہے
در مقفل ہے زندگانی کا
اور ہاتھوں سے لپٹی دستک ہے
خواب لیٹے ہوئے ہیں پٹڑی پر
آنکھ کی سمت بند پھاٹک ہے
روز اٹھتا ہے اک بقا کا شور
روز بجتی فنا کی ڈھولک ہے
اپنی آواز کے ابھرنے تک
خامشی بھی عجیب گنجلک ہے
یعنی ہر شخص ہے تماشائی
یعنی دنیا بس ایک ناٹک ہے
کاش اک بار وہ کہے ناہید
ہاں محبت ہے اور بیشک ہے
ناہید کیانی
No comments:
Post a Comment