شاعری میں ہیر جیسا رنگ واپس آئے گا
قافیہ ہو کر غزل میں جھنگ واپس آئے گا
چھوڑ جا لیکن محبت پر بھروسہ ہے مجھے
تُو مِری یادوں سے ہو کر تنگ واپس آئے گا
یہ سفر ایسا اچھنبا ہے، کہ راہِ عشق پر
بے نیازی سے گیا جو دنگ واپس آئے گا
آپ شہرِ نا روا میں تجربہ کر دیکھیے
پھول پھینکیں گے جواباً سنگ واپس آئے گا
خوش نہ ہو مفلس کے ہاتھوں سے نوالے چھین کر
ایسے خلقت میں جنونِ جنگ واپس آئے گا
پھر سے قبضہ کر لیا تنہائی کے آسیب نے
پھر سے تالے پر مکاں کے زنگ واپس آئے گا
تیری سب رعنائیاں تھیں میری نظروں کے طفیل
بھول جا پھر تجھ پہ ویسا رنگ واپس آئے گا
نرت بھاؤ پر سمے کے زندگی کا رقص دیکھ
چھوڑ کر اپنی جگہ ہر انگ واپس آئے گا
ڈھونڈتے ہو کیا حسن اس شہرِ بے ترتیب میں
اب کہاں وہ پہلے والا ڈھنگ واپس آئے گا
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment