Tuesday, 10 January 2023

اک درد مسلسل کا اثر کاٹ رہا تھا

 اک دردِ مسلسل کا اثر کاٹ رہا تھا

میں پھول سے ہیرے کا جگر کاٹ رہا تھا

بے لوث محبت کا ثمر کاٹ رہا تھا

چپ چاپ پڑا شام و سحر کاٹ رہا تھا

رشتوں کی اذیت کا سفر کاٹ رہا تھا

کاٹے نہیں کٹتا تھا مگر کاٹ رہا تھا

پرواز سے پہلے مِرے پر کاٹ رہا تھا

صیاد مِرا رختِ سفر کاٹ رہا تھا

رشتوں کی اذیت مِرے ماتھے پہ رقم تھی

میں تاڑنے والوں کی نظر کاٹ رہا تھا

جس پیڑ نے بخشا اسے سایہ بھی ثمر بھی

ظالم! وہ جلانے کو شجر کاٹ رہا تھا

صد حیف !تُو نے مجھ پہ وہ دیوار گرا دی

تیرے لیے جس میں نیا در کاٹ رہا تھا

کوئی تو مِرے خواب کی تعبیر بتائے

اک چاند مِرا خواب میں سر کاٹ رہا ہے

گھبرا کے نکل آیا ہوں الفی تِرے گھر سے

اپنا تھا مگر آج وہ گھر کاٹ رہا تھا


افتخار حسین الفی

No comments:

Post a Comment