تِرے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے
تجھے بھلانا بھی چاہا مگر بھلا نہ سکے
نہ جانے کون سی ایسی تھی دل پہ مجبوری
ہنسی بھی آئی لبوں پر تو مسکرا نہ سکے
دئیے ہیں زخم جو دل پر غمِ محبت نے
ہم آنسوؤں سے بھی ان کو کبھی مٹا نہ سکے
زبان کھولی جو ہم نے تو ہونٹ کانپ اٹھے
ہم اپنے دل کی کہانی کبھی سنا نہ سکے
وفا کی راہ میں خود کو مٹا کے بھی صابر
ہم ان کو اپنی وفا کا یقیں دلا نہ سکے
حلیم صابر
No comments:
Post a Comment