Friday, 6 January 2023

لگتا ہے اپنے عہد و بیاں سے مکر گئے

 لگتا ہے اپنے عہد و بیاں سے مکر گئے

اے شہر وہ دلوں کے جواری کدھر گئے

کوئی مکالمہ ہی نہیں رات سے مِرا

میں چُپ ہوں میرے روشنیوں والے مر گئے

محسوس کر کے سوچا مجھے ایک شخص نے

میرے دل و دماغ چراغوں سے بھر گئے

پھولوں نے تیرے جُوڑے میں آ کر پناہ لی

گجرے کلائیوں کی نفاست پہ مر گئے

کوئی وفا شعار نہ بُھولے گا عمر بھر

آنکھوں کے ساتھ راہ میں ہم دل بھی دھر گئے

وہ کچے گھر میں آج بھی رہتی ہے مطمئن

شہزادے جس کی چاہ میں جاں سے گزر گئے

پہلے بھی کوئی کم تو نہ تھے شہر میں شریف

افسوس کا مقام ہے تم بھی سُدھر گئے؟

کم ظرف لوگ آئے تھے جاگیرِ قیس میں

واپس پلٹ کے دشت کی توہین کر گئے

اتنا لُٹے ہیں مہر و مروت کی آڑ میں

ہم سے کسی نے ہاتھ ملایا تو ڈر گئے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment