أفکار پریشاں
لے جا رہا ہے عشق مِرا اب کدھر مجھے
اپنے سوا کوئی بھی نہ آئے نظر مجھے
پہلے تو منجدھار بھی ہوتا تھا ہمسفر
ساحل سے بھی ہے لگنے لگا اب تو ڈر مجھے
لایا کہاں ہے مجھ کو جنوں راہِ عشق میں
خود کا ہے کچھ خیال نہ تیری خبر مجھے
کل شب کو تیری یاد میں دیکھا جو چاند کو
شرما گیا کہ دیکھ رہا ہے قمر مجھے
فرقت کی شب میں آنکھ سے جب خوں ٹپک پڑا
حیرت سے دیکھنے لگے سب بام ودر مجھے
لڑنے کو جا رہا ہوں رقیبوں سے آج میں
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
میں تو سخنوروں میں سناتا ہوں دردِ دل
داد و دہش کا شوق نہیں ذرہ بھر مجھے
مٹی کو جب چُھوا اسے سونا بنا دیا
اے کاش! چُھو لے راہ کا دستِ ہنر مجھے
اسامہ ابن راہی
No comments:
Post a Comment