دھرتی پہ فلک سے نہ سمندر سے گِرا ہوں
جھرنے کی طرح میں کسی پتھر سے گرا ہوں
غیروں کی مجال اتنی کبھی ہو نہیں سکتی
لگتا ہے کہ میں اپنوں کی ٹھوکر سے گرا ہوں
اک پھول کی پتی نے جگر کاٹ دیا ہے
شبنم کی طرح میں بھی گل تر سے گرا ہوں
گھر شوق سے جو میں نے بنایا ہے اسی میں
دیوار سے ٹکرایا، کبھی در سے گرا ہوں
جس موڑ پہ تو ساتھ مِرا چھوڑ گیا تھا
میں بھی تو وہیں، تیرے برابر سے گرا ہوں
خالد میں نشے میں ہوں مجھے کوئی بتا دے
اندر سے گرا ہوں کہ میں باہر سے گرا ہوں
خالد کھوکھر
No comments:
Post a Comment