دل ہے اپنا نہ اب جگر درپیش
ہے تِری چشم معتبر درپیش
لوگ بیمار کیوں نہ پڑ جاتے
جب کہ تھا حسن چارہ گر درپیش
میں ہوا چاہتا تھا بے قابو
زندگی ہو گئی مگر درپیش
بات کہنی ہے اور اس میں بھی
لفظ و معنی کا ہے سفر درپیش
اہلِ نقد و نظر پریشاں ہیں
جب سے جامی کا ہے ہنر درپیش
عبدالرحمٰن جامی
No comments:
Post a Comment