Friday 15 August 2014

جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم

جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم
سورج کا بوجھ سر پر اٹھائے رہیں گے ہم
کھل کر برس ہی جائیں کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ
کب تک خلا میں پاؤں جمائے رہیں گے ہم
جھانکے گا آئینوں سے کوئی اور جب تک
ہاتھوں میں سنگریزے اٹھائے رہیں گے ہم

بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے

بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مِرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں، دیارِ کم نظراں
یتیم خانۂ ادراک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے

کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے

کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
جسکی مجھے تلاش تھی، وہ تو مجھی میں تھا
کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے
دنیا نے تجھ کو میرا مخاطب سمجھ لیا
محوِ سخن تھا میں تو سدا اپنے آپ سے

جو آگ نہ تھی ازل کے بس میں

جو آگ نہ تھی ازل کے بس میں
وہ آگ ہے میری دسترس میں
قدرت سے نبرد آزما ہوں
ہر چند ہوں جسم کے قفس میں
میں آج ہوں، کل نہیں ہوں، لیکن
صدیاں ہیں مرے نفس نفس میں

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آوازِ جرس
پیش و پس سے بےخبر گھر سےنکل جاتے ہیں لوگ

اپنا اندازِ جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں

اپنا اندازِ جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں
چاکِ دل، چاکِ گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں
غزنوی ہوں اور گرفتارِ خمِ زلفِ ایاز
بت شکن ہوں اور دل میں بتکدہ رکھتا ہوں میں
ہے خود اپنی آگ سے ہر پیکرِ گِل تابناک
لے ہوا کی زد پہ مٹی کا دِیا رکھتا ہوں میں

اس کے غم کو غم ہستی تو مرے دل نہ بنا

اس کے غم کو غمِ ہستی تو مِرے دل نہ بنا
زِیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
تُو بھی محدود نہ ہو مجھ کو بھی محدود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی ویرانئ دل، جانِ جہاں
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفل نہ بنا

ازل سے ایک عذاب قبول و رد میں ہوں

ازل سے ایک عذابِ قبول و رد میں ہوں
کبھی خدا تو کبھی ناخدا کی زد میں ہوں
خدا نہیں ہوں مگر زندہ ہوں خدا کی طرح
میں اک اکائی کی مانند ہر عدد میں ہوں
میں آپ ہی اپنا خالق ہوں آپ ہی مخلوق
میں اپنی حد سے گزر کر بھی اپنی حد میں ہوں

Tuesday 12 August 2014

روبرو رب کے کھڑے، کفر انا تولتے ہیں

روبرو رب کے کھڑے ، کُفرِ انا تولتے ہیں
جھوٹ کے ہونٹوں سے ہم مانگے کا سچ بولتے ہیں
ہم وہ کافر ہیں کہ خود اپنے ہی بُت پوجتے ہیں
مستعار آنکھوں سے ہم ذات کا در کھولتے ہیں
ہم نے نفرت کی نئی قیمتیں کی ہیں ایجاد
ہم کہ تسبیح، محبت کی بہت رولتے ہیں

اک اجنبی سی راہ تھی، لمبا سفر رہا

اِک اجنبی سی راہ تھی، لمبا سفر رہا
اِک رشتۂ فراق تھا، جو عمر بھر رہا
تھے ایک ہی مکان میں زنداں الگ، الگ
وہ اپنے گھر میں قید، تو میں اپنے گھر رہا
تھی مے کدے کی شام ، وہ آہو تھا زیرِ دام
اور زیرِ بحث، مسئلۂ خیر و شر رہا

یہ اکثر ٹوٹ جاتے ہیں سنو تم خواب مت دیکھو

یہ اکثر ٹُوٹ جاتے ہیں، سُنو، تُم خواب مت دیکھو
رُخِ خورشید مت ڈھونڈو، رہِ مہتاب مت دیکھو
خُدا مسجد میں کب ہے، وہ تمہارے دِل میں رہتا ہے
وہاں کچھ بھی نہیں ہے، تُم سوئے محراب مت دیکھو
کہاں برکھا کی رُت ہے، یہ تو اِک مصنوعی بارش ہے
نہیں ہے اِن میں پانی، غور سے تالاب مت دیکھو

کچھ یاد نہیں رہتا، سفر ہے کہ حضر ہے

کچھ یاد نہیں رہتا، سفر ہے کہ حضر ہے
اِک خواب کا ساحل ہے جہاں ریت کا گھر ہے
پتھر کا خُداؤں سے تعلق ہے پرانا
اللہ کے کعبے میں بھی اک سنگ امر ہے
یہ دل کا پرندہ بھی ہے خوددار و خُدادار
بیٹھا ہے جہاں جا کے، محبت کی کگر ہے

دوا، دعا سے گزر کر خدا تک آ ہی گئے

دوا، دعا سے گزر کر خُدا تک آ ہی گئے
ترے مریض، دیارِ شفا تک آ ہی گئے
جو قیدِ ہجر کے دیرینہ انجماد میں تھے
وہ سرد ہاتھ بھی بندِ قبا تک آ ہی گئے
جو ہونٹ صرف لرزتے تھے، کپکپاتے تھے
وہ چُپ کے شور سے بچ کر، صدا تک آ ہی گئے

قسمت ساتھ کہاں دیتی ہے چاند چکور کی یاری میں

قسمت ساتھ کہاں دیتی ہے چاند چکور کی یاری میں
کون مسیحا کام آتا ہے، دل کی اس بیماری میں
میرے پاس تو رب کے لیے بھی پھول نہیں، لوبان نہیں
تیرے زیور کیا بنواؤں، میں اتنی ناداری میں
بدل کے تالا چابی تم نے اپنے پاس ہی رکھ لی ہے
بولو، کیوں تقدیر چھپائی، میرے گھر، الماری میں

پت جھڑ کو جو اجرک بھی بدلنے نہیں دیتے

پت جھڑ کو جو اجرک بھی بدلنے نہیں دیتے
گجروں کے لیے،  موتیے کھلنے نہیں دیتے
کس درجہ ہیں کم ظرف بخیلانِ شریعت
مفہوم کو الفاظ سے ملنے نہیں دیتے
نفرت کے پرستار ہیں، ظلمت کے عملدار
قندیلِ محبت بھی وہ جلنے نہیں دیتے

لاہور سے خوشبو کے سلام آنے لگے ہیں

لاہور سے خوشبو کے سلام آنے لگے ہیں
اِس موسمِ سرما میں بھی آم آنے لگے ہیں
تازہ ہے بہت ہجر کی لذت کئی دن سے
کچھ درد پرانے مرے کام آنے لگے ہیں
اب میکدۂ خواب ہے آباد سرِ شب
آنکھوں کے چھلکتے ہوئے جام آنے لگے ہیں

زمیں پکڑ کے فلک تک جھنجھوڑ لیتے ہیں

زمیں پکڑ کے فلک تک جھنجھوڑ لیتے ہیں
پٹخ کے در پہ ترے، سر بھی پھوڑ لیتے ہیں
یہ اہلِ عشق ہیں پوچھ اِنکی رمز، رومی سے
کماں سے چُھوٹا ہوا تیر موڑ لیتے ہیں
ہوئے ہیں ایسے پیمبر انہی فقیروں کے
جو ماہ تاب کی اُنگلی مروڑ لیتے ہیں

بہہ گئے ضبط کے ساگر کے کنارے سارے

بہہ گئے ضبط کے ساگر کے کنارے سارے
ریگِ غم پی گئی بہتے ہوئے دھارے سارے
عمر بھر پہنے رہے تن پہ ترا ہجر و فراق
جبر کے جتنے بھی موسم تھے گزارے سارے
بوجھ سے جن کے، بدن دوہرا ہوا جاتا تھا
ایک اِک کر کے وہ الزام اتارے سارے

Thursday 7 August 2014

اگلا سفر طویل نہیں

اگلا سفر طویل نہیں

 وہ دن بھی آئے ہیں، اس کی سیاہ زلفوں میں
 کپاس کھلنے لگی ہے، جھلکتی چاندی کے
 کشیدہ تار چمکنے لگے ہیں بالوں میں
 وہ دن بھی آئے ہیں، سرخ و سپید بالوں میں
 دھنک کا کھیلنا ممنوع ہے، لبوں پہ فقط
 گلوں کی تازگی اک سایۂ گریزاں ہے

بہی کھاتہ

بہی کھاتہ

 روز لکھتا ہوں آنے والے کل
 اور پرسوں کی زندگی کا حساب
 بہی کھاتہ کہ جس میں “فردا” کے
 قرض کی واجبی ادائی کی
 ذمہ داری ہے “آج” کے سر پر
یہ “زرِ پیشگی” عجب ہے مِرا