Tuesday, 12 August 2014

زمیں پکڑ کے فلک تک جھنجھوڑ لیتے ہیں

زمیں پکڑ کے فلک تک جھنجھوڑ لیتے ہیں
پٹخ کے در پہ ترے، سر بھی پھوڑ لیتے ہیں
یہ اہلِ عشق ہیں پوچھ اِنکی رمز، رومی سے
کماں سے چُھوٹا ہوا تیر موڑ لیتے ہیں
ہوئے ہیں ایسے پیمبر انہی فقیروں کے
جو ماہ تاب کی اُنگلی مروڑ لیتے ہیں
ہے ان کے تارِ نظر میں طلسمِ بود و نبود
شکستہ خواب کو لمحوں میں جوڑ لیتے ہیں
اندھیرے اور اجالے بھی ان کے حکم میں ہیں
سیاہِ شب سے وہ سورج نچوڑ لیتے ہیں
وہ اپنی دلقِ دریدہ میں ٹانکنے کے لیے
فلک کی چھت سے ستارے بھی توڑ لیتے ہیں
کمانِ عشق سے مسعودؔ، تِیرہ راتوں میں
وہ سُوئے عرش خدنگ اپنے چھوڑ لیتے ہیں

مسعود منور

No comments:

Post a Comment