پت جھڑ کو جو اجرک بھی بدلنے نہیں دیتے
گجروں کے لیے، موتیے کھلنے نہیں دیتے
کس درجہ ہیں کم ظرف بخیلانِ شریعت
مفہوم کو الفاظ سے ملنے نہیں دیتے
نفرت کے پرستار ہیں، ظلمت کے عملدار
اے پیرِ مُغاں کیوں تیرے پالے ہوئے خرگوش
بادہ کو صراحی سے نکلنے نہیں دیتے
سر پھوڑتے ہیں جوش میں دیوارِ حسد سے
شہرت کی بلا سر سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
خورشید کو رکھتے ہیں پرے حدِ نظر سے
وہ سر پہ گری برف پگھنے نہیں دیتے
رکھتے ہیں بغیچے کے سبھی پیڑ بغل میں
پتّے بھی کسی شاخ میں ہلنے نہیں دیتے
یہ میرزا سودا کے نئے غنچے ہیں مسعودؔ
خود کو کبھی انسان میں ڈھلنے نہیں دیتے
مسعود منور
No comments:
Post a Comment