یہ اکثر ٹُوٹ جاتے ہیں، سُنو، تُم خواب مت دیکھو
رُخِ خورشید مت ڈھونڈو، رہِ مہتاب مت دیکھو
خُدا مسجد میں کب ہے، وہ تمہارے دِل میں رہتا ہے
وہاں کچھ بھی نہیں ہے، تُم سوئے محراب مت دیکھو
کہاں برکھا کی رُت ہے، یہ تو اِک مصنوعی بارش ہے
اِدھر آدھا، اُدھر آدھا، خُدا کے کر دیئے ٹُکڑے
نہ پہچانو گے خود کو، شیشۂ پنجاب مت دیکھو
امارت کے گدھوں پر قیمتی پالان ہوتے ہیں
جہالت کی قبائے اطلس و سنجاب مت دیکھو
دلوں کی سلطنت کے راز، اہلِ دل سمجھتے ہیں
محبت کے ہیں کیا کیا منطقی اسباب مت دیکھو
وطن سے عشق تو مسعودؔ ہے ایمان میں شامل
وطن کی کشتِ زر، بنجر ہے یا شاداب، مت دیکھو
مسعود منور
No comments:
Post a Comment