Tuesday 12 August 2014

کچھ یاد نہیں رہتا، سفر ہے کہ حضر ہے

کچھ یاد نہیں رہتا، سفر ہے کہ حضر ہے
اِک خواب کا ساحل ہے جہاں ریت کا گھر ہے
پتھر کا خُداؤں سے تعلق ہے پرانا
اللہ کے کعبے میں بھی اک سنگ امر ہے
یہ دل کا پرندہ بھی ہے خوددار و خُدادار
بیٹھا ہے جہاں جا کے، محبت کی کگر ہے
حوروں کے پجاری اسی رستے میں ملے ہیں
لگتا ہے کہ اب آگے فسانوں کا نگر ہے
رندوں پہ بھی برسائے گا اب وعظ کی لاٹھی
مے خانے کی تہذیب پہ مُلا کی نظر ہے
صبحوں کو غزل، شام کو ہے رب کی مناجات
یہ آدمی کاہے کو ہے، لفظوں کا شجر ہے
ہیروں کی طرح ترشے ہوئے چہروں کا شوقین
مسعودؔ پہ ، لگتا ہے چڑیلوں کا اثر ہے

مسعود منور

No comments:

Post a Comment