Friday 15 August 2014

اس کے غم کو غم ہستی تو مرے دل نہ بنا

اس کے غم کو غمِ ہستی تو مِرے دل نہ بنا
زِیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
تُو بھی محدود نہ ہو مجھ کو بھی محدود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی ویرانئ دل، جانِ جہاں
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفل نہ بنا
دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ، مشغلۂ دل نہ بنا
پھر مِری آس بندھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصلِ غم کو خدارا! غمِ حاصل نہ بنا

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment