Thursday 30 April 2015

يوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جيسے

يوں نہ مِل مجھ سے خفا ہو جيسے
ساتھ چل موجِ صبا ہو جيسے
لوگ يوں ديكھ كر ہنس ديتے ہيں
تُو مجھے بھول گيا ہو جيسے
موت بھی آئی تو اس ناز كے ساتھ
مجھ پہ احسان كيا ہو جيسے

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا 
اف یہ دل کی ویرانی، یہ نظر کا سناٹا
خوش خیال لوگوں کو بدگماں نہ کر ڈالے
کچھ اِدھر کی خاموشی، کچھ اُدھر کا سناٹا
کاش کوئی پڑھ سکتا، کاش کوئی سن سکتا
شام کی شفق میں تھا رات بھر کا سناٹا

ہمنشیں پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے

ہمنشیں پوچھ نہ مجھ سے کہ، محبت کیا ہے
اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ
پھر رہا ہے مِرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
سن! کہ نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں
قہقہے گونج رہے ہیں یہاں، کہرام کے ساتھ

سب کو ادراک زیاں گر کے سنبھلنے سے ہوا

سب کو ادراکِ زیاں گر کے سنبھلنے سے ہوا
مجھ کو احساس تِرے دَر سے نکلنے سے ہوا
کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار
حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہوا
کوئی رازِ دلِ کہسار نہ کھلنے پایا
روز اعلان تو چشموں کے ابلنے سے ہوا

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رُکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لیے
کوئی نسیم کا نغمہ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لیے

نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہو گا

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہو گا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے
میں بے ادب ہوں، ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی​
بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی​
قسمت میں مِری اتنے کہاں تھے تِرے غم بھی​
جس لغزش آدمؑ سے خلافت ہے مزین​
اس جوشِ محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی​

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن
گیسُو مِرے دالان میں لہراؤ کسی دن
سُن سُن کے حریفوں کے تراشے ہوئے الزام
معیارِ حریفاں پہ نہ آ جاؤ کسی دن
یارو! مجھے منظور، تغافل بھی جفا بھی
لیکن کوئی اس کو تو منا لاؤ کسی دن

بڑھ گیا بادہ گلگوں کا مزہ آخر شب

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب
اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخرِ شب
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا تِرا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیرِ در مئے خانہ
کوئی دیوانہ، کوئی آبلہ پا، آخرِ شب

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دِہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہِجر میں مِلنے شب و ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پِگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ، پِگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے

پھر چھڑی رات بات پھولوں کی

پھر چھِڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی
پھول کے ہار، پھول کے گجرے
شام پھولوں کی، رات پھولوں کی
آپ کا ساتھ، ساتھ پھولوں کا
آپ کی بات، بات پھولوں کی

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

آپ کی یاد آتی رہی، رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لَو تھرتھراتی رہی رہی، رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا
یاد بن کے آتی رہی رہی رات بھر

رات بھر دیدہ غمناک میں لہراتے رہے

رات بھر دیدۂ غمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کئے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا

یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے

یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جرأتِ اظہارِ حرفِ مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوہِ ناز و اندازِ حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
دلوں میں ازدحامِ آرزو لب بند رہتے تھے

کوئی تو ایسا وظیفہ ہو کہ حیرانی ہو

کوئی تو ایسا وظیفہ ہو کہ حیرانی ہو
میں اِدھر ایڑی کو رگڑوں تو اُدھر پانی ہو
دشتِ وحشت میں کھڑے خشک شجر رب راکھا
ہم فقیروں کی دعائیں ہیں کہ آسانی ہو
عشق متروک صحیفہ ہے سو اس کو لے کر
دلِ ویران وہاں چل جہاں ویرانی ہو

اپنی مرضی سے کہاں اپنے قدم کھینچتے ہیں

اپنی مرضی سے کہاں اپنے قدم کھینچتے ہیں
ہم کو دنیا کی طرف رنج و الم کھینچتے ہیں
خود سے اکتائے ہوئے لوگوں کا مولا وارث
جانے کیا بات ہے جس کے لئے دَم کهینچتے ہیں
تیرا غم آنکھ کی پتلی میں حفاظت سے رہے
بس یہی سوچ کے ہم گریے سے نَم کھینچتے ہیں

کب ہم نے یہ چاہا تھا تا عمر ٹھہر جاتے

کب ہم نے یہ چاہا تھا، تا عمر ٹھہر جاتے
کچھ خواب تھے پلکوں کی دہلیز پہ دھر جاتے
یخ بستہ ہوائیں تو کہتی تھیں، پلٹ جاؤ
تم خود ہی زرا سوچو گهر ہوتا تو گهر جاتے
ہم پر تو مقفل تھا ہر شہر کا دروازه
وه کرب کی راتیں تھیں تم ہوتے تو مر جاتے

یہیں کہیں میں کسی گوشہ جمال میں تھا

یہیں کہیں میں کسی گوشۂ جمال میں تھا
میں ایسا ہونے سے پہلے بھی ایسے حال میں تھا
مِری زبان پہ جاری تھی آیتِ وحشت
میں ہِجر آنے سے پہلے یہ کس خیال میں تھا
یہ جسم و روح بہت بعد میں بنے، پہلے
میں ایک اِسم کے اندر تھا اور دھمال میں تھا

مخملی رات میں اکثر سر صحرا کوئی

مخملی رات میں اکثر سرِ صحرا کوئی
مجھ پہ کرتا رہا میری طرح گِریہ کوئی
یہ تِرا ہِجر ہے یا رحل پہ رکھا ہوا دکھ
یہ کوئی تو ہے کہ اترا ہے صحیفہ کوئی
ریل کی پٹڑی پہ چلتے ہوئے وقتِ رخصت
رو پڑا دے کے مجھے رات دِلاسہ کوئی

Wednesday 29 April 2015

عجیب قصہ ہوں تحریر کر کے دیکھ مجھے

عجیب قِصہ ہوں تحریر کر کے دیکھ مجھے
میں تیرا وقت ہوں تسخیر کر کے دیکھ مجھے
کبھی رسُوم کی زنجیر توڑ میرے لیے
کبھی تو پاؤں کی زنجیر کر کے دیکھ مجھے
تجھے تو یاد ہی ہوں گے وہ خد و خال مِرے
انہی لکیروں پہ تعمیر کر کے دیکھ مجھے

لگ کر کھڑا رہا کہیں دیوار سے اگر

لگ کر کھڑا رہا کہیں دیوار سے اگر
میں لوٹ کر نہ آ سکا بازار سے اگر
اک شور ہاؤ ہو مِرے اندر مچا ہوا
یہ شور بڑھ گیا تِرے انکار سے اگر
گھر سے نکل تو آؤں گا میں تیرے حکم پر
اور پوچھنا پڑا تجھے اخبار سے اگر

ایسے لگتا ہے یہی قوم کے غمخوار ہیں بس

ایسے لگتا ہے یہی قوم کے غم خوار ہیں بس
رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس
ان پہ کیوں کھولتے ہو جنتِ فردوس کے باب
اہلِ دنیا ہیں، یہ دنیا کے طلبگار ہیں بس
اہلِ حق جانتے ہیں عدل کے اثمار ہیں کیا
اہلِ ظلمت پہ یہ اثمار گراں بار ہیں بس

اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا

اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مُکر جاتے تو اچھا ہوتا
جن کو تعبیر میسر نہیں اس دنیا میں
وہ حسِیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے
گر تِری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا

اشک جب اپنی آنکھ میں آیا ساری کہانی ختم ہوئی

اشک جب اپنی آنکھ میں آیا ساری کہانی ختم ہوئی
تم نے جب احساس دلایا، ساری کہانی ختم ہوئی
تم ہی نہیں ہو دشمن اپنے ہم بھی ہیں کچھ ایسے ہی
ہم نے خود جب دل کو جلایا ساری کہانی ختم ہوئی
ساری باتیں ٹھیک تھیں تیری تُو میرا میں تیرا تھا
اور مفاد جہاں ٹکرایا، ساری کہانی ختم ہوئی

یہ جو پر شکستہ ہے فاختہ یہ جو زخم زخم گلاب ہے

یہ جو پر شکستہ ہے فاختہ، یہ جو زخم زخم گلاب ہے
یہ ہے داستاں مِرے عہد کی جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے
جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی، جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی
جہاں بات کرنا محال ہو ۔۔۔ وہاں آگہی بھی عذاب ہے
مِری جان ہونٹ تو کھول تو کبھی اپنےحق میں بھی بول تو
یہ عجیب ہے تِری خامشی، نہ سوال ہے، نہ جواب ہے

اب وفا اور جفا کچھ بھی نہیں

اب وفا اور جفا کچھ بھی نہیں
اس کا دنیا میں صِلہ کچھ بھی نہیں
دل کو سینے میں چھپا رہنے دو
اس پہ داغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی بربادی کی تفصیل نہ پوچھ
یوں سمجھ لے کہ بچا کچھ بھی نہیں

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ مِلے ہو نہ فاصلہ رکھا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تُو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
پھول کھِلتے ہی کھُل گئیں آنکھیں 
کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا

دل میں جو کچھ ہے ابھی اس کی پزیرائی نہیں

دل میں جو کچھ ہے ابھی اس کی پزیرائی نہیں 
ہمہ خوشبو ہوں، پہ کھلنے کی گھڑی آئی نہیں
اَن کہی بات کے سو روپ، کہی بات کا ایک 
کبھی سن وہ بھی جو منت کشِ گویائی نہیں
میری نظروں میں ہے کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح
وہ نمی، جو ابھی شاخوں میں بھی لہرائی نہیں

جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا

جب انہی کو نہ سنا پائے غمِ جاں اپنا
چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نارسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا
اس جگہ اہرمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا
دَم کی مہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن 
سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا

کیا سروکار اب کسی سے مجھے

کیا سروکار اب کسی سے مجھے
واسطہ تھا تو تھا تجھی سے مجھے
بے حِسی کا بھی اب نہیں احساس
کیا ہوا تیری بے رخی سے مجھے
موت کی آرزو بھی کر دیکھوں 
کیا امیدیں تھیں زندگی سے مجھے

سوز دل بھی نہیں سکوں بھی نہیں

سوزِ دِل بھی نہیں، سکوں بھی نہیں
زندگانی وبال یوں بھی ہے
تیری خواہش اور اس قدر خواہش
وجہِ حاصل سہی جنوں بھی ہے
خوش بھی التفاتِ دوست سے دل 
غیرتِ عشق سر نِگوں بھی ہے

مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پہ آنا پڑا مجھے​
وہ کر نہیں رہا تھا مِری بات کا یقین
پر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے​
بھولے سے مِری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اک زخم لگانا پڑا مجھے​

اک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے

اِک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے
اس بات کا ملال ہے، شِکوہ نہیں مجھے
میں اس کو بے وفائی کا الزام کیسے دوں
اس نے تو ابتدا سے ہی چاہا نہیں مجھے
کیا كيا امیدیں باندھ کر آیا تھا سامنے
اس نے تو آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے

Tuesday 28 April 2015

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بِھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
ادھر ادھر کئی منزلیں ہیں جو چل سکو تو چلو
بنے بنائے ہیں سانچے جو ڈھل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتے ہیں 
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں 
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے، ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی، مگر اب لگتا ہے 
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں 
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے 
کس کو معلوم کہاں کے ہیں، کدھر کے ہم ہیں

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا​

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں مِلتا​
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں مِلتا​
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی، وہاں نہیں مِلتا
کہاں چراغ جلائیں، کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو مِلتی ہیں لیکن مکاں نہیں مِلتا

ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا

ذہانتوں کو کہاں کَرب سے فرار مِلا
جسے نگاہ مِلی، اس کو انتظار مِلا
وہ کوئی راہ کا پتھر ہو یا حسِین منظر
جہاں سے راستہ ٹھہرا، وہیں مزار مِلا
کوئی پکار رہا تھا کھلی فضاؤں سے
نظر اٹھائی تو چاروں طرف حِصار مِلا

دن سلیقے سے اگا رات ٹھکانے سے رہی

دن سلیقے سے اُگا، رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
چند لمحوں کو بنا پائیں مصور آنکھیں
زندگی روز تو تصوِیر بنانے سے رہی
اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی
رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی

نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر

نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر
جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر
سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ 
دریا ہوا ہے گم، تو سمندر تلاش کر
تاریخ میں محل بھی ہے، حاکم بھی، تخت بھی
گمنام جو ہوئے ہیں، وہ لشکر تلاش کر

نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں

نظر مِلا کے ذرا دیکھ مت جھُکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اک ستارہ تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو مِلتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانۂ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُ ت میں تو گھنے پیڑ بھی جھَڑ جاتے ہیں

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دَور کے انساں سے تو یہ پیڑ بھَلے ہیں
چیونٹی کی طرح رینگتے لمحوں کو نہ دیکھو
اے ہم سفرو! رات ہے، اور کوس کڑے ہیں
پتھر ہیں تو رستے سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
رہرو ہیں تو کیوں صورتِ دیوار کھڑے ہیں

کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہوئے

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرفدارِ ہوائے راہگزر کیسے ہوئے

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے​

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے​
نیند اس کی ہے جو اڑا لے جائے​
زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے​
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے​
تیغ اس کی ہے شاخِ گُل اس کی​
جو اسے کھینچتا ہوا لے جائے​

کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا

کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا​
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا​
لوگ کب کب کے آشنا نکلے​
وقت کتنا گریز پا نکلا​
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں​
قُربتوں میں بھی فاصلہ نکلا​

رشتہ جسم و جاں بھی ہوتا ہے

رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے
ٹوٹنے کا گماں بھی ہوتا ہے
اس توّہم کے کارخانے میں
کارِ شیشہ گراں بھی ہوتا ہے
ہم سے عزلت نشیں بھی ہوتے ہیں
عرصۂ لامکاں بھی ہوتا ہے

Monday 27 April 2015

چاند سا چہرہ نور سی چتون ماشا اللہ ماشا اللہ

چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ
خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ
گُل رُخِ نازک، زلف ہے سنبل، آنکھ ہے نرگس، سیب زنخداں
حُسن سے تم ہو غیرتِ گلشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ
ساقئ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حُسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر، شیشہ ہے گردن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ

رند خراب تیرا وہ مے پیے ہوئے ہے

رِندِ خراب تیرا وہ مے پیے ہوئے ہے
لذت سے جان جس پر زاہد دیے ہوئے ہے
کس شان سے وہ مے کش آتا ہے میکدے میں
قاضی سبو، صراحی مفتی لیے ہوئے ہے
آتا نہیں نظر کچھ، گو سامنا ہے اس کا
کیا بیچ میں تحیّر، پردہ کیے ہوئے ہے

ظاہر میں ہم فریفتہ حسن بتاں کے ہیں

ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں
یارانِ رفتہ سے کبھی جا ہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
ٹھکرا کے میرے سر کو وہ کہتے ہیں ناز سے
لو ایسے مفت سجدے مِرے آستاں کے ہیں

گریہ بے سود ہے نالہ دل ناشاد عبث

گریہ بے سود ہے نالۂ دلِ ناشاد عبث
داد رس کوئی نہیں، شکوۂ بیداد عبث
کھنچ گئی رُوح بدن سے تِری شمشیر کے ساتھ
حوصلہ دار لگانے کا ہے جلاد عبث
ایک رنگ آتا ہے یاں ضعف سے اِک جاتا ہے
رنگ بھرتا مِرے نقشے میں ہے بہزاد عبث

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کے مٹا بھی نہ سکوں
ضبط کمبخت نے اور آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤ تو سنا بھی نہ سکوں

Sunday 26 April 2015

لب اظہار پہ تالے ہیں زباں بندی ہے

لبِ اظہار پہ تالے ہیں، زباں بندی ہے
فکرِ آزاد پہ اس دور میں پابندی ہے
حاکمِ شہر کو ہے زعم کہ وہ جو بھی کہے
بس وہ سُنت ہے، وہی شرعِ خداوندی ہے
بلبلو! اپنے پر و بال کی اب فکر کرو
اِس چمن میں، جہاں دستورِ فغاں بندی ہے

وفا کے نام پہ کوئی منافقت نہ کرے

وفا کے نام پہ کوئی منافقت نہ کرے
عدو سےخون پہ میرے مصالحت نہ کرے
امیرِ شہر کی خدمت میں عرض ہے کہ مزید
ستمگروں کے ستم کی مدافعت نہ کرے
دِئیے کے کان میں یہ بات کون ڈال گیا
ہوا اگر ہو مخالف، مزاحمت نہ کرے

لہو میں ناچتی وحشت خراج مانگتی ہے

لہو میں ناچتی وحشت خراج مانگتی ہے
شکستہ پائی بھی اپنا بیاج مانگتی ہے
بہم کریں بھی تو کب تک اِسے لہو کی رسد
ہوس کی منڈی بدن کا اناج مانگتی ہے
غریبِ شہر نے خون سے جو فصل سینچی تھی 
امیرِ شہر کا اب تخت و تاج مانگتی ہے

زندگی اس قدر زیان نہ کر

زندگی اس قدر زیان نہ کر
مجھ کو اپنوں سے بدگمان نہ کر
میری پہچان چھین لے مجھ سے
ایسا احسان مہربان نہ کر
تُو نے دیکھا ہے، میں نے جھیلا ہے
حال مجھ سے مِرا بیان نہ کر

واحد پرست عشق بداماں بنا دیا

واحد پرست، عِشق بداماں بنا دیا 
کافر نظر نے ہم کو مسلماں بنا دیا
غنچے کو گُل، تو گُل کو گُلِستاں بنا دیا 
ذرّے کو تُو نے مہرِ درخشاں بنا دیا
ہم تھے فقط فرشتہ ہی بننے پہ مطمئن 
یہ ہے خُدا کی دین کہ انساں بنا دیا

غم حسین ہر اک دشت ہر دیار گیا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسین

غمِ حسینؑ ہر اِک دشت، ہر دیار گیا
جہاں نہ قافلہ پہنچا، وہاں غبار گیا
غمِ حسینؑ ہر اک شہر ہر دیار گیا
جہاں نہ قافلہ پہنچا وہاں غبار گیا
نہیں‘ نگل گئی کچھ طالبانِ بیعت کو’
جو بچ گئے انہیں ’ذکرِ حسین‘مار گیا

جبر آئے کہ اختیار آئے

جبر آئے کہ اختیار آئے 
کچھ تو قابو میں ایک بار آئے
طالبِ گُل ہے دل، نہ خائفِ خار 
اب خزاں آئے یا بہار آئے
یہ ہوا، یہ گھٹا، یہ ابر، یہ تُو 
کس کو توبہ پہ اعتبار آئے

کوئی یہ زاہد سے جا کے کہہ دے کہ رسم الٹی شباب کی ہے

کوئی یہ زاہد سے جا کے کہہ دے کہ رسم الٹی شباب کی ہے
ثواب میں ہے گُنہ کی لذت، گُنہ میں لذت ثواب کی ہے
رُخِ منور پہ درحقیقت مثال ایسی نقاب کی ہے
مہِ دو ہفتہ کے روئے روشن پہ جیسے چادر سحاب کی ہے
کچھ ایسی توبہ شکن ہر اک بات اس بتِ لاجواب کی ہے
ہے گیسوؤں میں گھٹا کا عالم، نظر میں مستی شراب کی ہے

ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا

ابھی وہ کم سِن ابھر رہا ہے، ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ابھی ہے مجھ پر گرفت آدھی، ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا
حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا
ادھر ہویدا سحاب آدھا، ادھر عیاں ماہتاب آدھا
مِرے سوالِ وصال پر تم، نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہو
تمہِیں بتاؤ یہ بات کیا ہے؟، سوال پورا جواب آدھا

شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ

شوخی، شباب، حسن، تبسم، حیا کے ساتھ
دِل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ
ہر لمحہ مانگتے ہیں دعا دیدِ یار کی
یادِ بتاں بھی دل میں ہے یادِ خدا کے ساتھ
تیرِ نگاہ و لطف و کرم سے نہ بچ سکا
جو مر سکا نہ خنجرِ جور و جفا کے ساتھ

ہم کسی دین سے ہوں قائل کردار تو ہیں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں
ہم ثناء خواںِ شہِ حیدرِ کرارؓ تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدﷺ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدؐ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں

Saturday 25 April 2015

وداع یار کا لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں

وداعِ یار کا لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں 
میں خود تو زندہ رہا، وقت مر گیا مجھ میں
سکوتِ شام میں چیخیں سنائی دیتی ہیں
تُو جاتے جاتے عجب شور بھر گیا مجھ میں
وہ پہلے صرف مِری آنکھ میں سمایا تھا
پھر ایک روز رگوں تک اتر گیا مجھ میں

سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی، دوا اداسی کی 
بہت شریر تھا میں اور ہنستا پِھرتا تھا
پھر اِک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی
امورِ دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تِری چلتی ہے، یا اداسی کی 

روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں

رُوٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں
پھر اس کے بعد جان نہ رُوٹھا کسی سے میں
بانہوں سے میری وہ ابھی رخصت نہیں ہوا
پر گُم ہوں انتظار میں اس کے ابھی سے میں
دَم بھر تِری ہوس سے نہیں ہے مجھے قرار
ہلکان ہو گیا ہوں تِری دلکشی سے میں

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا
مجھے اب تم سے ڈر لگنےلگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی، آ گئی کیا

ہے عجب تمہارا موسم دل و دیدہ رائیگاناں

ہے عجب تمہارا موسم دل و دیدہ رائیگاناں
نہ وصالِ جان و جاناں، نہ فراقِ جان و جاناں
دَم نِیم شب سے پہلے نہ بکهر رہے یہ محفل
ہیں فروغِ شب کہاں گم وہ دراز داستاناں
نہیں جُز غبار کچھ بهی تِرے دامنِ فضا میں
ہوئے گم کہاں بیاباں، وہ غبارِ کارواناں

تو نے مستی وجود کی کیا کی

تُو نے مستی وجود کی کیا کی 
غم میں بھی تھی جو اِک خوشی کیا کی
ناز بردارِ دلبراں اے دل 
تُو نے خود اپنی دلبری کیا کی
آ گیا مصلحت کی راہ پہ تُو 
اپنی ازخود گزشتگی کیا کی

Friday 24 April 2015

نہیں یہ بات کہ ہم تلخیاں نہیں رکھتے

نہیں یہ بات کہ ہم تلخیاں نہیں رکھتے
کشادہ ظرف ہیں لب پر فغاں نہیں رکھتے
ہمارے سر سے کڑی دھوپ اور جائے کہاں
اسے خبر ہے کہ ہم سائباں نہیں رکھتے
غلط نہ سوچ کہ جسموں پہ چیتھڑوں کے ساتھ
ہم ایسے لوگ کوئی داستاں نہیں رکھتے

جب بھی مانگوں گا ہری رت کی دعا مانگوں گا میں

جب بھی مانگوں گا، ہری رُت کی دُعا مانگوں گا میں
گاؤں کا باسی ہوں رزمیؔ، اور کیا مانگوں گا میں
چاندنی کی شال چاہوں گا اندھیری رات میں
دھوپ میں سایہ گھنیرے پیڑ کا مانگوں گا میں
پھاگنی شاموں میں عریاں شاخچوں کے واسطے
چیتلی صبحیں، گلابوں کی ردا مانگوں گا میں

پیار وہ بھی تو کرے وہ بھی تو چاہے گاہے

پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے
عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شِکناں
عہد وہ روز کرے اور نِبھاہے گاہے
لے حوالے تِرے کر دی ہے تعلق کی کلِید
یاد کر روز اِسے، مِل اِسے گاہے گاہے

شکوہ بھی کر رہے ہیں اسی کا خدا سے ہم

شکوہ بھی کر رہے ہیں اسی کا خدا سے ہم
ملنے بھی جا رہے ہیں اُسی بے وفا سے ہم
آ، دیکھ لیں کہ دل میں کوئی چور تو نہیں
کیوں ڈر رہے ہیں آج ہر اِک آشنا سے ہم
ڈھونڈے گا تُو کہاں سے ہمیں اِس جہان میں
تیرا پتہ تو پوچھ ہی لیں گے صبا سے ہم

اچھی ہے دوستوں سے شکایت کبھی کبھی​

اچھی ہے دوستوں سے شکایت کبھی کبھی​
بڑھتی ہے اس طرح بھی محبت کبھی کبھی​
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اس طرح​
آئی ہے کام یوں بھی ضرورت کبھی کبھی​
ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپا​
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی​

ابھی میں سوچتا پھرتا تھا کچھ لفظوں کے بارے میں

ابھی میں سوچتا پھرتا تھا کچھ لفظوں کے بارے میں
وہ سب کچھ کہہ گیا مجھ کو، اشارے ہی اشارے میں
کسی کے ساتھ اس کو دیکھ کر جتنا جلا ہے دل
جلن اتنی کہاں ہو گی جہنم کے شرارے میں
مُصِر ہے ساری دنیا پھر بھی اپنی جان دینے پر
اگرچہ دل کا سودا ہے خسارے ہی خسارے میں

شب و روز خوشہ اشک سے مری کشت چشم بھری رہی

شب و روز خوشۂ اشک سے مِری کشتِ چشم بھری رہی
یہ عجیب کھیت کی فصل تھی، جو ہری ہوئی تو ہری رہی
کئی رُود و چشمۂ وصل تھے، جنہیں خشک ہجر نے کر دیا
فقط اِک صراحئ چشم تھی، جو بھری رہی تو بھری رہی
وہ جو ایک شامِ جدائی تھی، وہی عمر بھر کی کمائی تھی
نہ وہ ڈر رہا شبِ تار کا ، نہ وہ خواہشِ سحری رہی

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے
آبلہ پا ہیں میرے ساتھ زمانے کب سے
میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں، ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو 
مجھ سے رُخ پھیر لیا، میرے خدا نے کب سے

سینے سے لپٹ جا میرے خوابوں سے نکل کر

سینے سے لپٹ جا میرے خوابوں سے نکل کر 
اِک بار مِلیں ہم بھی حجابوں سے نکل کر 
کرنوں کی طرح بانٹ زمانے میں اجالا 
خوشبو کی طرح پھیل گلابوں سے نکل کر 
میخانوں کی صورت ہیں تیری جھیل سی آنکھیں 
ڈوبے ہیں جہاں لوگ شرابوں سے نکل کر 

Thursday 23 April 2015

اب مرے قتل کا الزام نہ تقدیر پہ رکھ

اب مِرے قتل کا الزام نہ تقدیر پہ رکھ
ہاتھ سینے سے اُٹھا، قبضۂ شمشیر پہ رکھ
میری تصویر پہ اے پھول چڑھانے والے
میرے قاتل کا عمامہ مِری تصویر پہ رکھ
میری تحریر مِرے خون سے لِکھی گئی ہے
اب کسی جنگ کا نقشہ مِری تحریر پہ رکھ

اب تو شمشیر چلا دینے کا دل چاہتا ہے

اب تو شمشیر چلا دینے کا دل چاہتا ہے 
شہر کو آگ لگا دینے کا دل چاہتا ہے
واعظا! آج نہ کر صبر کی تلقین ہمیں
تجھ کو منبر سے ہٹا دینے کا دل چاہتا ہے
ہم نے مانا ہمیں روتے ہوئے صدیاں بِیتیں
آج قاتل کو رُلا دینے کا دل چاہتا ہے

ہم بھی ہیں دیدۂ خونبار کو دھونے والے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

ہم بھی ہیں دِیدۂ خوں بار کو دھونے والے
اِس طرف دیکھ نئے زخم پرونے والے
کربلا تیرے مقدر کا ستارہ جاگا
آن پہنچے ہیں تِری خاک پہ سونے والے
اب یہاں پر کئی شہکار نظر آئیں گے
آ گئے دشت کی مٹی کو بھگونے والے

میں چیر نہ دوں کیوں دامن کو، میں کیوں نہ گریباں چاک رہوں

میں چِیر نہ دوں کیوں دامن کو، میں کیوں نہ گریباں چاک رہوں
کسی مقتل میں بس جاؤں کہیں، اور ڈال کے سر پہ خاک رہوں
اِک رات عزا خانے میں رہوں، اِک رات کسی مسجد میں پڑوں
اِک رات رہوں میں شرمندہ، اِک رات بہت بے باک رہوں
اِک صبح کسی مندر میں جُھکوں، اِک شام سرِ مے خانہ گِروں
اِک شام زمیں پر رقص کروں، اِک صبح سرِ افلاک رہوں

کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا

کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بِچھا کر رقص کِیا
اسے دیکھا خود کو بھُول گئے، لہرا لہرا کر رقص کیا
تِرے ہِجر کی آگ میں جلتے تھے، ہم انگاروں پر چلتے تھے
کبھی تپتی ریت پہ ناچے ہم، کبھی خود کو جلا کر رقص کیا
کیا خوب مزا تھا جینے میں، اِک زخم چھُپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھُرچا ناخن سے، اور خون بہا کر رقص کیا

میں منبر کو حکمت لکھنا چاہتا تھا

میں منبر کو ”حکمت“ لکھنا چاہتا تھا
نئیں لکھ پایا
میں محراب کو ”سجدہ“ لکھنا چاہتا تھا
نئیں لکھ پایا
کیسے لکھتا
منبر پر قتل و غارت کا فتویٰ دینے والے بیٹھے دیکھے تھے
اور محراب سے خون ٹپکتے دیکھا تھا

سائیاں سوہنیا

سائیاں سوہنیا 
تیرے دربار، گلبار کی سبز تر روشنی کی قسم سیداؐ
لوگ ڈرتے نہیں 
لوگ ڈرتے نہیں کچھ بھی کہتے ہوئے 
مومنینِ محبت کی آہوں کراہوں کی تکذیب کرتے ہوئے 
عاشقوں کی ”مناجات، لا ریب فیھی“ پہ بہتان دھرتے ہوئے 
لوگ ڈرتے نہیں

آنکھیں ہیں تاریخ کا کچرا دان نہیں ہیں

آنکھیں ہیں
تاریخ کا کچرا دان نہیں ہیں
جن کے اندر
تم اپنے من چاہے اور بوسیدہ منظر پھینکتے جاؤ
بِینائی کا معنی، سب کچھ دیکھتے رہنا کب ہوتا ہے
(اور بکواس کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے)

یونہی نہیں یہ کائنات جلوت دل نشیں بنی

یونہی نہیں یہ کائنات، جلوتِ دلنشیں بنی
عشق سے ہر فلک بنا، عشق سے ہر زمیں بنی
عشق تمام تر انا، عشق میں عاجزی کہاں 
عشق وہ ذات ہے کہ جو، راحتِ عاشقیں بنی 
ہجر میں جھوٹ بول کر، عشق میں رَد ہوا ہے تُو 
نام تو ہو گیا تِرا، بات تِری نہیں بنی 

صاحب منبر و سجود خون بہا کے خوش ہوئے

صاحبِ منبر و سجود، خون بہا کے خوش ہوئے 
داعشی دیو کے حضور بھینٹ چڑھا کے خوش ہوئے
راہِ محمدیؐ کے ساتھ ایسا ستم کیا گیا 
اندھی روایتوں کو بھی، دین میں ضم کیا گیا
کتنا عظیم علم تھا، جس کی نہ قدر کی گئی 
جامِ خِرد کے نام پہ کچی شراب دی گئی

Wednesday 22 April 2015

غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں

غرورِ جاں کو مِرے یار بیچ دیتے ہیں
قبا کی حِرص میں دستاربیچ دیتے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں کہ دوچار خواہشوں کے لیے
تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں
جنونِ زینت و آرائشِ مکاں کے لیے
کئی مکیں، در و دیوار بیچ دیتے ہیں

قربتوں کے نشے تھے جو وہ اترنے لگے

قُربتوں کے نشے تھے جو وہ اترنے لگے
ہوا چلی تو جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رُتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
وہ مدتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے

جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی

جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکون ہو
یہ چوٹ کسی صاحبِ محفل سے لگی تھی
اے دل! تِرے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد، ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی

اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیے

اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیے
بول اے ہوائے شہر! کدھر جانا چاہیے
کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم
کوُئے مُراد سے بھی اُدھر جانا چاہیے
وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اُتر جانا چاہیے

ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں

ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں
آ، کہ اب تسلیم کر لیں تُو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
قافلے گزرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں

اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے

اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے
رونا چاہا تو رو نہیں پائے
ہم سے تعبیرِ خواب پوچھتے ہو
زندگی بھر جو سو نہیں پائے
مدتوں غم کی پرورش کی ہے
یہ صِلے آج تو نہیں پائے

Tuesday 21 April 2015

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
فصلِ گل آئی پھر اک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

دل کو حصار رنج و الم سے نکال بھی

دل کو حصارِ رنج و الم سے نکال بھی
کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
آہٹ سی اس حسین کی ہر سُو تھی، وہ نہ تھا
ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی
سب اپنی اپنی موجِ فنا سے ہیں بے خبر
میرا کمالِ شاعری، تیرا جمال بھی

Monday 20 April 2015

ہنسے تو آنکھ سے آنسو رواں ہمارے ہوئے

ہنسے، تو آنکھ سے آنسو رواں ہمارے ہوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو ان کے نام کے ہیں
بہت سے قرض، سرِ دوستاں، ہمارے ہوئے
کہیں تو آگ لگی ہے، وجود کے اندر
کوئی تو دکھ ہے، کہ چہرے دھواں ہمارے ہوئے

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
میں کب اداس نہیں تھا، مگر نہ اب کی طرح
پھر آج شہرِ تمنا کی رہگزاروں سے
گزر رہے ہیں کئی لوگ روز و شب کی طرح
تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا
یہ کیا کہ چھوڑ چلا تُو بھی اور سب کی طرح

ابھی جو شعر سنے تم نے ابتدا کے مرے

ابھی جو شعر سنے تم نے ابتدا کے مِرے 
یہ سارے حرف ہیں بھائی کسی دعا کے مِرے
فقط کتابیں نہیں، خواب بھی پڑے ہوئے ہیں 
تُو دیکھ سکتا ہے کمرے میں یار جا کے مِرے
سنا ہے شہر کے بچوں میں اس کا چرچا ہے 
کھلونے بیچ رہا ہے جو سب چُرا کے مِرے

مستقل اس میں ٹھکانہ بھی نہیں چاہتے ہم

مستقل اِس میں ٹھکانہ بھی نہیں چاہتے ہم 
اور اِس دشت سے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
دیکھ سکتے ہیں کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے 
بات ایسی ہے، بتانا بھی نہیں چاہتے ہم
چاہتے ہیں کہ خریدار بھی دوڑے آئیں 
اور آواز لگانا بھی نہیں چاہتے ہم

نیناں بھول بھلیاں نیناں گھور سمندر ورگے

نیناں بھُول بُھلیاں

نیناں گھور سمندر ورگے
ہر کوئی ڈُبنا چاہوے
بنجاروں کے جیسا اپنا، راجا بھیس وٹاوے
من کے بھانبن تن سلگاویں، چارچوفیرے چھیاں
نیناں بھول بھلیاں
نیناں بھول بھلیاں

طوفان سامنے ہے کنارے کدھر گئے

طوفان سامنے ہے کنارے کدھر گئے
کشتی میں ہمسفر تھے ہمارے، کدھر گئے
آنکھوں میں ظلمتوں کو اتارا تھا کس لئے
اب اس سے پوچھتے ہیں ستارے کدھر گئے
دیکھا پلٹ کے الٹے بگولے تھے چار سُو
سوچا جو لوگ ساتھ تھے سارے، کدھر گئے

کسی میں دم نہیں اتنا سر شہر ستم نکلے

کسی میں دَم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے
ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے
کرم کی ایک یہ صورت بھی ہو سکتی ہے، مقتل میں
تِری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے
نہ میں واعظ، نہ میں زاہد، مریضِ عشق ہوں ساقی
مجھے کیا عُذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے

ظلم ہی ظلم ہے زوروں کی ہوا چلتی ہے​

ظلم ہی ظلم ہے زوروں کی ہوا چلتی ہے​
ایسے طوفان میں اک شمع کی کیا چلتی ہے​
تم کہاں جنسِ وفا لے کے چلے آئے ہو​
اِس زمانے میں تو بس رسمِ جفا چلتی ہے​
اب کوئی بادِ مخالف کا مخالف ہی نہیں​
سب ادھر چلتے ہیں جس رخ کی ہوا چلتی ہے​

جس کو بھی آگ لگانے کا ہنر آتا ہے

جس کو بھی آگ لگانے کا ہُنر آتا ہے
وہی ایوانِ سیاست میں نظر آتا ہے
خالی دامن ہیں یہاں پیڑ لگانے والے
اور حصے میں لٹیروں کے ثمر آتا ہے
یاد آ جاتی ہے پردیس گئی بہنوں کی
جھنڈ چڑیوں کا جب آنگن میں اتر آتا ہے

زندگی کے لیے اتنا نہیں مانگا کرتے

زندگی کے لیے اتنا نہیں مانگا کرتے
مانگنے والے سے کاسہ نہیں مانگا کرتے
مالک خود سے دنیا نہیں مانگا کرتے
یار دریاؤں سے قطرہ نہیں مانگا کرتے
ہم وہ راہی ہیں جو لیے پھرتے ہیں سر پر سورج
ہم کبھی پیڑوں سے سایہ نہیں مانگا کرتے

Sunday 19 April 2015

میں کب جہاں سے طلب گار مال و زر کا تھا

میں کب جہاں سے طلبگار مال و زر کا تھا
مِرا سوال محبت کی اک نظر کا تھا
تِرا وصال میسر تھا چند لمحوں تک
پھر ایک ہجر تھا اور وہ بھی عمر بھر کا تھا
مجھے تباہ کوئی غیر خیر کیا کرتا
جو پیش پیش تھا دشمن وہ میرے گھر کا تھا

جو بوجھ بھی ہو خود ہی مری جان اٹھانا

جو بوجھ بھی ہو خود ہی میری جان اٹھانا
ہاں اب نہ کسی دوست کا احسان اٹھانا
وہ شخص اٹھا سکتا نہیں فائدہ ہرگز
جس شخص کو آتا نہیں نقصان اٹھانا
وہ چاند کی چودہ کو سمندر کا تلاطم
وہ دل میں کسی یاد کا طوفان اٹھانا

پیڑ پہ جس دم پتے پیلے پڑ جاتے ہیں

پیڑ پہ جس دَم پتے پیلے پڑ جاتے ہیں
تیز ہوا کے اک جھونکے سے جھَڑ جاتے ہیں
بندہ اپنی ذات میں تنہا رہ جاتا ہے
رفتہ رفتہ سارے لوگ بچھڑ جاتے ہیں
ہم کو دیکھو ہم نے پال رکھے ہیں دل میں
ایسے صدمے جن سے شہر اجڑ جاتے ہیں

ڈوبتی نبضیں کنارا اور میں

ڈوبتی نبضیں، کنارا، اور میں
ایک تنکے کا سہارا، اور میں
اے خدا! نادیدہ دشمن سے بچا
سازشی ہے شہر سارا، اور میں
مت سمجھنا لوٹ آؤں گا کبھی
تیری محفل میں دوبارا، اور میں

سفر سے اپنے گھر واپس نہ آیا

سفر سے اپنے گھر واپس نہ آیا
مسافر لوٹ کر واپس نہ آیا
دوبارہ دیکھنے کی تھی آرزو
ستارہ تا سحر واپس نہ آیا
منایا بھی مگر مانا نہیں وہ
بلایا بھی مگر واپس نہ آیا

ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر جن کے لیے روتے ہیں

ہم راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر جن کے لیے روتے ہیں
وہ غیر کی بانہوں میں آرام سے سوتے ہیں
ہم اشک جدائی کے گرنے ہی نہیں دیتے
بے چین سی پلکوں میں موتی سے پروتے ہیں
ہوتا چلا آیا ہے بے درد زمانے میں
سچائی کی راہوں میں کانٹے سبھی بوتے ہیں

تم مجھے یوں‌ بھلا نہ پاؤ گے

فلمی گیت

تم مجھے یوں‌ بھُلا نہ پاؤ گے
تم مجھے یوں‌ بھُلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت مِرے
سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے

وہ بہاریں‌ وہ چاندنی راتیں
ہم نے کی تھیں جو پیار کی باتیں

اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا

فلمی گیت

اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا، ہمیں پائیے گا

نگاہوں سے چھپ کر دکھاؤ تو جانیں
خیالوں میں بھی تم نہ آؤ تو جانیں
اجی لاکھ پردوں میں چھپ جائیے گا
نظر آئیے گا، نظر آئیے گا

زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں

زندگی کی راہوں میں، رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی، اور ہم اکیلے ہیں
گیسوؤں کے سائے میں ایک شب گزاری تھی
آج تک جدائی کی دھوپ میں اکیلے ہیں
اب تو اپنا سایہ بھی، کھو گیا اندھیروں میں
آپ سے بچھڑ کر ہم، کس قدر اکیلے ہیں

کبھی مقتل کے مقابل کبھی زندان کے قریب

کبھی مقتل کے مقابل کبھی زِندان کے قریب
ہم بہر حال رہے منزلِ جاناں کے قریب
جھِلملاتے ہوئے تاروں نے بھی دَم توڑ دیا
آخرِ شب ہے چلے آؤ رگِ جان کے قریب
سینہ چاکانِ چمن آج ادھر سے گزرے
پھول ہی پھول نظر آتے ہیں زِندان کے قریب

غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی

غم چھیڑتا ہے سازِ رگِ جاں کبھی کبھی
ہوتی ہے کائنات غزل خواں کبھی کبھی
ہم نے دیئے ہیں عشق کو تیور نئے نئے
ان سے بھی ہو گئی ہیں گریزاں کبھی کبھی
اس حسنِ اتفاق کی تصویر کھینچ لو
ہوتے ہیں ایک ساحل و طوفاں کبھی کبھی

Saturday 18 April 2015

عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے

عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے
جس کے حلقے کھل نہیں سکتے کسی تدبیر سے
اور ہی کچھ ہو شبِ فرقت کے کٹنے کی سبیل
دل تصوّر سے بہلتا ہے، نہ اب تصویر سے
خط اسے مت کہہ، یہ لکھا ہے مِری تقدیر کا
ربط ہے دل کو تمہاری شوخئ تحریر سے

خلوص دل سے جو تو ہم پہ مہرباں ہوتا

خلوصِ دل سے جو تُو ہم پہ مہرباں ہوتا
مجال تھی کہ مخالف یہ آسماں ہوتا
نصیب میں نہ اگر تیرا آستاں ہوتا
تو کیا خبر کہ ٹھکانا مِرا کہاں ہوتا
تمہارا قرب میسر جو میری جاں ہوتا
بہار ہوتی، چمن ہوتا، آشیاں ہوتا

جذب دل پر ناز تھا مجھ کو مرے کام آ گیا

جذبِ دل پر ناز تھا مجھ کو، مِرے کام آ گیا
دُور جو رہتا تھا مجھ سے، وہ سرِ شام آ گیا
حُسن برساتا ہوا جب وہ سرِ بام آ گیا
میرے لب پر دفعتاً اللہ کا نام آ گیا
چارہ گر بولا کہ بچنے کی کوئی اب کر سبیل
ہُوک سی دل میں اُٹھی، لب پر تِرا نام آ گیا

اپنے سر کیوں غیر کا احسان لو

اپنے سر کیوں غیر کا احسان لو
خود پرکھ لو، مجھ کو تم، پہچان لو
تم پہ صدقے، جان لو، ایمان لو
ہاں، مگر ہم کو تو اپنا جان لو
جانتے تو ہو، ہمیں پہچان لو
مان لو! کہنا ہمارا مان لو

بادل بادل گھومے پر گھر لوٹ کے آنا بھولے ناں

بادل بادل گھومے پر گھر لوٹ کے آنا بھولے ناں
اللہ سائیں! ڈار سے بچھڑی کونج ٹھکانا بھولے ناں
جب کبھی اجلے اجلے دن پر ٹوٹ کے برسی کالی رات
ایک اپنی بستی کے نام کا دِیا جلانا بھولے ناں
باغ بغیچے میرے جب جب نذر لہو کی چاہیں تو
میری برکت والی مٹی مجھے بلانا بھولے ناں

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوکِ سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
پتھر پہ سر رکھ کر سونے والے دیکھے
ہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
قاتل جس کی زد سے خود محفوظ رہ سکے
ایسا کوئی خنجر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

حبس شب ہو تو اجالے بھی ترے شہر سے آئیں

حبسِ شب ہو تو اُجالے بھی تِرے شہر سے آئیں
خواب دیکھوں تو حوالے بھی تِرے شہر سے آئیں
تیرے ہی شہر میں سر تن سے جُدا ہو جائے
خون بہا مانگنے والے بھی تِرے شہر سے آئیں
بات تو جب ہے کہ اے گریہ کُنِ حُرمتِ حرف
مدحِ قاتل میں مقالے بھی تِرے شہر سے آئیں

حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی

حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی
ماں کے لیے بیٹوں کی گواہی نہیں ہوتی
اس شہر کے لوگوں سے اماں مانگ رہا ہوں
جس شہر میں قاتل کو سزا ہی نہیں ہوتی
یہ کہہ کے زمیں زادیاں گھر سے نکل آئیں
اشراف کے سر پر تو رِدا ہی نہیں ہوتی

دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں

دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں
ہو خیر ٹہنیوں کی، ہوا کی نظر میں ہیں
ہر اک قبا سے تمغۂ ہجرت اتار دو
ہم لوگ بھائی بھائی ہیں اور اپنے گھر میں ہیں
تیغِ ستم پہ خون سے تحریر ہو گئیں
وہ جرأتیں نہاں جو بدن کی سِپر میں ہیں

حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو

حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
دھیان کی شمع جلا کر دیکھو
کیا خبر کوئی دفینہ مل جائے
کوئی دیوار گرا کر دیکھو
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو

مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید

میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید
جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید
میں نے تو پُرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر آپ کا شیوہ ہی نہیں شاید

وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا

وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
وہ دوسروں سے مگر مجھ کو کچھ جدا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
وہ جس کی کم سخنی کو غرور سمجھا گیا
میری نگاہ کو وہ پیکرِ حیا سا لگا

وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا

وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا
تِری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں فسانے کا

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں فسانے کا
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اُس کے آنے کا
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
یہ خواب زاد ہے کردار کِس فسانے کا
کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں ہے اس پر ابھی زمانے کا

Friday 17 April 2015

قصور وار ہیں سب اعتراف کون کرے

قصور وار ہیں سب، اعتراف کون کرے
سزا کا فیصلہ اپنے خلاف کون کرے
بڑے خلوص سے مِلتے ہیں ظاہراً سب دوست
کسی کے دل میں ہے کیا، انکشاف کون کرے
ہزار تلخ سہی، ذائقہ حقائق کا
حقیقتوں سے مگر انحراف کون کرے

فصیلِ غم میں دریچہ کوئی تو رہنے دو

فصیلِ غم میں دریچہ کوئی تو رہنے دو
خوشی کے واسطے رَستہ کوئی تو رہنے دو
مِرے نصیب کی ویران رہگزاروں میں
کِرن، خیال، اجالا کوئی تو رہنے دو
مہکتے خواب کہیں راستہ نہ کھو بیٹھیں
کنارِ چشم، دِیا سا کوئی تو رہنے دو

ہر سمت نفرتوں کا ہے بیوپار میرے دوست

ہر سمت نفرتوں کا ہے بیوپار میرے دوست
کرتا نہیں کسی سے کوئی پیار میرے دوست
سورج دکھا کے لَو بھی چراغوں کی چھین لی
دھوکا ہوا ہے ہم سے تو ہر بار میرے دوست
کب تک چھپا رہے گا تُو دل کی گپھاؤں میں
باہر نکل کے مل مجھے اک بار میرے دوست

زاویے کیا کیا بکھر کر چشم تر میں رہ گئے

زاویے کیا کیا بکھر کر چشمِ تر میں رہ گئے
دیکھنے والے مگن، کارِ ہنر میں رہ گئے
گِر چکا پردہ، سبھی کردار رُخصت ہو چکے
پھر بھی کچھ منظر کفِ تمثیل گر میں رہ گئے
خستگانِ منزلِ حرف و معانی، کیا کہیں
کچھ سفر میں اور کچھ سطرِ سفر میں رہ گئے

اگرچہ نیند کی زد میں تھی زندگی میری

اگرچہ نیند کی زد میں تھی زندگی میری
مثالِ خواب، بکھرتی تھی روشنی میری
میں چاند ہو کے بھی ظُلمت کے دائروں میں رہا
مِرے ہی کام نہ آئی یہ چاندنی میری
میں دشمنوں سے نہ مِلتا تو جان سے جاتا
مِرے خلاف صف آراء تھی دوستی میری

کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے

کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کوئی پتھر تان رہا ہے شیشے کی دیوار کے پیچھے
دل میں آگ لگا جاتا ہے یہ بِن یار، بہار کا موسم
ایک تپش بھی ہوتی ہے اس ٹھنڈی ٹھار پھوار کے پیچھے
سوچ ابھی سے، پھر کیا ہو گا، بیت گئی جب رات ملن کی
ایک اداسی رہ جائے گی پائل کی جھنکار کے پیچھے

کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیا

کیا عشق تھا جو باعثِ رُسوائی بن گیا
یارو! تمام شہر تماشائی بن گیا
ب،ن مانگے مل گئے مِری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دستِ حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا

کیا خبر کب نیند آئے دیدہ بے خواب میں

کیا خبر کب نیند آئے دیدۂ بے خواب میں
شام سے ہم جل رہے ہیں سایۂ مہتاب میں
اب تمہاری یاد سے پڑتے ہیں یوں دل میں بھنور
جیسے کنکر پھینک دے کوئی بھرے تالاب میں
جس گلی میں گھر تمہارا ہے، کرو اس کا خیال
ہم تو ہیں بدنام اپنے حلقۂ احباب میں

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مِرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برونِ دَر بھی، پسِ دَر بھی میں ہی تھا

تیز ہے سودائے مژگان نگار اب کے برس

تیز ہے سودائے مژگانِ نگار اب کے برس
کوڑیوں کے مول بکتے ہیں کٹار اب کے برس
بادہ نوشی پر رہا دار و مدار اب کے برس
طاق پر رکھے رہے سب کاروبار اب کے برس
ہوش کس کو ہے جو پہنائے کسی کو بیڑیاں
ہو رہے آپ دیوانے لوہار، اب کے برس

Thursday 16 April 2015

ذہن و دل کا قرار کھینچتی ہے

ذہن و دل کا قرار کھینچتی ہے
جب محبت حصار کھینچتی ہے
ناقۂ دل ہے ایک شوخ کے ہاتھ
اور وہ اکثر مُہار کھینچتی ہے
جا رہا ہوں میں پھر سُوئے صحرا
پھر کسی کی پکار کھینچتی ہے

صحرا کی تیز گرم ہوا سا مزاج تھا

صحرا کی تیز گرم ہوا سا مزاج تھا
ظاہر میں جس کا بادِ صبا سا مزاج تھا
اپنی بھی دوستوں سے کچھ ایسی بنی نہیں
اپنا بھی دوستوں میں کھرّا سا مزاج تھا
گاہے وہ مہربان تھا، گاہے تھا بے نیاز
اک شخص کا عجیب خدا سا مزاج تھا

ہوں ترا درد مت نکال مجھے

ہوں تِرا درد، مت نکال مجھے
دل کی گہرائیوں میں پال مجھے
تیرے قدموں میں آ کے گِرنا ہے
جس بلندی پہ بھی اُچھال مجھے
مسکراہٹ سے غم چھپاتا ہوں
تُو سمجھتا ہے خوش خصال مجھے

عمر بھر کی یہی کمائی ہے

عمر بھر کی یہی کمائی ہے
ایک تصویر تک رسائی ہے
حسن والوں کے مدرسے کا نصاب
ہیرا پھیری ہے، بے وفائی ہے
کوئی فرعون ہو کہ ہو نمرود
سانس چلنے تلک خدائی ہے

Tuesday 14 April 2015

کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جز متاع جاں

کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جُز متاعِ جاں
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقۂ عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں

ذہن سے دل کا بار اترا ہے

ذہن سے دل کا بار اترا ہے
پیرہن تار تار اترا ہے
ڈوب جانے کی لذتیں مت پوچھ
کون ایسے میں‌ پار اترا ہے
ترکِ مئے کر کے بھی بہت پچھتائے
مدتوں میں‌ خمار اترا ہے

جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی

جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ
نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی
نجانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی

ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے

ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے
غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے
تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے

دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

دل سے اگر کبھی تِرا ارمان جائے گا
گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا
سب ہونگے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں
مجھ کو مِرے سکوت سے پہچان جائے گا
اس کفرِ عشق سے مجھے کیوں روکتے ہو تم
ایمان والو! میرا ہی ایمان جائے گا

یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے

یا رب! مِری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زُلفِ پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رُخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زُلف کے سائے سے دُور رکھ
رَستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

حسن کا ایک آہ نے چہرہ نڈھال کر دیا

حُسن کا ایک آہ نے چہرہ نڈھال کر دیا
آج تو اے دِلِ حزِیں! تُو نے کمال کر دیا
سہتا رہا جفائے دوست، کہتا رہا ادائے دوست
میرے خلوص نے مِرا جینا محال کر دیا
جتنے چمن پرست تھے، سایۂ گل میں مست تھے
اپنا عروجِ گُلستاں، نذرِ زوال کر دیا

دن گزر گیا اعتبار میں

دن گزر گیا اعتبار میں
رات کٹ گئی انتظار میں
وہ مزا کہاں وصلِ یار میں
لطف جو ملا انتظار میں
ان کی اک نظر کام کر گئی
ہوش اب کہاں، ہوشیار میں

Monday 13 April 2015

اتنے چپ چاپ کبھی رات کے تارے بھی نہ تھے

اتنے چُپ چاپ کبھی رات کے تارے بھی نہ تھے
اور یوں مُہر بہ لب زخم ہمارے بھی نہ تھے
کیسی عُجلت میں کیا اپنوں نے اقرارِ شکست
ہم ابھی پوری طرح جنگ تو ہارے بھی نہ تھے
شب کی تزئین کی خاطر ہمیں جانا ہی پڑا
شام کے کام ابھی ہم نے سنوارے بھی نہ تھے

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا بدن لہو کا رواں مشتِ پر میں تھا
جاتے کہاں کہ رات کی باہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا
حدِ افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر
آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا

Sunday 12 April 2015

ترے شہر میں یہ کمال ہونا تھا ہو گیا

تِرے شہر میں یہ کمال ہونا تھا، ہو گیا
مِرا دل غموں سے نڈھال ہونا تھا، ہو گیا
کسی مصلحت کو عروج ملنا تھا، مل چکا
کوئی عشق، رُو بہ زوال ہونا تھا، ہو گیا
کوئی درد ملنا تھا، مل چکا ہے جو دیر سے
کوئی چہرہ خواب و خیال ہونا تھا، ہو گیا

یہاں رسم غم کا فروغ درد کا سلسلہ ہی نہیں رہا

یہاں رسمِ غم کا، فروغِ درد کا سلسلہ ہی نہیں رہا
تِرے بعد اب کسی دل میں پیار کا حوصلہ ہی نہیں رہا
تُو جہاں سے بچھڑا تھا آج بھی میں وہیں کھڑا ہوں اے جانِ جاں
تِرے بعد تو میرے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہا
مِرا چہرہ گِر کے چٹخ گیا، مِرا دل غموں سے تڑخ گیا
وہ غرورِ عہدِ جمال کیا، مِرا آئینہ ہی نہیں رہا

کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو

کیا دل مِرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو
برباد کیوں کیا ہے، خدارا، جواب دو
کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو
آنکھیں ملاؤ، ہم کو ہمارا جواب دو
کل سے مراد صبحِ قیامت سہی، مگر
اب تم کہاں ملو گے دوبارا، جواب دو

آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے

آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
یا سر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیے
یا پھر نظر سے اس کو گرایا نہ کیجیے
یوں مد بھری نگاہ اٹھایا نہ کیجیے
پینا حرام ہے تو پلایا نہ کیجیے

Saturday 11 April 2015

مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے

مِرا ہے کون دشمن، میری چاہت کون رکھتا ہے
اسی پر سوچتے رہنے کی فرصت کون رکھتا ہے
مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ، صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے
نہیں ہے نرخ کوئی میرے ان اشعارِ تازہ کا
یہ میرے خواب ہیں، خوابوں کی قیمت کون رکھتا ہے

ناں گنواؤ اپنا سکون تم مری چاہ میں

ناں گنواؤ اپنا سکون تم مِری چاہ میں
میں غبار ہوں تو بکھیر دو مجھے راہ میں
اسی ایک شامِ خزاں کا حُزن و ملال ہے
کوئی اور عکس نہیں ہے مِری نگاہ میں
تجھے کھو کے تیری انا کا میں نے بھرم رکھا
کئی کلفتیں، کئی مشکلیں تھیں نِباہ میں

آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا

آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شہر نے سارا لان خالی کر دیا
ہم تیرے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ، تیرا قصرِ عالیشان خالی کر دیا
دشمنوں سے شِست باندھی خمیۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا

چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں

چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسۂ خیرات لئے پھرتے ہیں
شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں

دامن ضبط بھگو دینے کو جی چاہتا ہے

دامنِ ضبط بھگو دینے کو جی چاہتا ہے
اتنا تنہا ہوں کہ رو دینے کو جی چاہتا ہے
سانس کی ڈور سلامت ہے ابھی تک شاید
اب یہ احساس بھی کھو دینے کو جی چاہتا ہے
شاخِ گل جب بھی تہی دست نظر آتی ہے
اپنا دل اس میں پرو دینے کو جی چاہتا ہے

Friday 10 April 2015

سورج کی دمک بجلی کی چمک ساون کا ہرا بن دیکھا ہے

سورج کی دمک، بجلی کی چمک، ساون کا ہرا بن دیکھا ہے
رنگین ملائم پتوں کی سرسر سے بھرا بن دیکھا ہے
دیوارِ فلک محرابِ زماں سب دھوکے آتے جاتے ہوئے
یہ ایک حقیقت ہم پہ کھلی جب سے کھلا بن دیکھا ہے
میراثِ جہاں اک عہدِ وفا کسی خواب زندہ رہنے کا
اک قصہ تنہا آدمؑ کا جس نے تنہا بن دیکھا ہے

دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں

دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اس کا ہمیں اس برس نہیں
دیکھو گلِ بہار اثر دشتِ شام میں
دیوارودر کوئی بھی کہیں پیش و پس نہیں
آیا نہیں یقین بہت دیر تک ہمیں
اپنے ہی گھر کا در ہے یہ بات قفس نہیں

اک عالم ہجراں ہی اب ہم کو پسند آیا

اِک عالمِ ہِجراں ہی اب ہم کو پسند آیا
یہ خانۂ وِیراں ہی اب ہم کو پسند آیا
بے نام و نشاں رہنا غریب کے علاقے میں
یہ شہر بھی دلکش تھا، تب ہم کو پسند آیا
تھا لال ہوا منظر سورج کے نکلنے سے
وہ وقت تھا وہ چہرہ جب ہم کو پسند آیا

ساعت ہجراں ہے اب کیسے جہانوں میں رہوں​

ساعتِ ہِجراں ہے اب کیسے جہانوں میں رہوں​
کِن علاقوں میں بسوں میں کِن مکانوں میں رہوں​
ایک دہشتِ لامکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف​
دشت سے نکلوں تو جا کر کِن ٹھکانوں میں رہوں​
علم ہے جو پاس میرے کس جگہ افشا کروں​
یا ابد تک اس خبر کے رازدانوں میں رہوں​

دیکھا نہیں خواب دلآراز سے آگے

دیکھا نہیں خوابِ دلآراز سے آگے
سوچا ہی نہیں ہم نے غمِ یار سے آگے
ہے مسکنِ خوباں کہ کوئی عالمِ ہُو ہے
موجود ہے کیا سایۂ دیوار سے آگے
اک حرفِ تأسّف ہی تھا انجام مسلسل
افسوس تھا آغاز کے اقرار سے آگے

چار دن اس حسن مطلق کی رفاقت میں کٹے

چار دن اس حُسن مُطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اس کی حسرت میں کٹے
اس جگہ رہنا ہی کیوں ان شہریوں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ لے جا مروّت میں کٹے
اک قیام، دلربا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہِ مصیبت میں کٹے

دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا

دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرّا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دَم سا ہو گیا
اس کے ہونے سے ہوا پیدا خیالِ جاں فزا
جیسے اک مُردہ زمیں میں باغ پیدا ہو گیا
پھر ہواۓ عشق سے آشفتگی خُوباں میں ہے
ان دنوں میں حسن بھی آزار جیسا ہو گیا

بے خیالی میں بس یونہی اک ارادہ کر لیا

بے خیالی میں بس یونہی اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نِبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا، میں نے بھی وعدہ کر لیا
غیر سے نفرت جو پالی، خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں

اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں
راستوں میں رہ جانا منزلوں کی حسرت میں
دیر تک کھڑے رہنا باغ کے اندھیرے میں
دیر سے جدا رہتے دلبروں کی حسرت میں
اس کی بے وفائی بھی مستقل نہیں ہوتی
دل سدا وہ رکھتا ہے دو رُخوں کی حسرت میں

Thursday 9 April 2015

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر
زخمِ ہستی کی کسک سے ہے نشانہ بے خبر
نگہتوں کے سائے میں ٹوٹے پڑے ہیں چند پھول
بجلیوں کی یورشوں سے آشیانہ بے خبر
حسنِ برہم کو نہیں حالِ پریشاں سے غرض
سازِ دل کی دھڑکنوں سے ہے زمانہ بے خبر

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا

فضائے نِیم شبی کہہ رہی ہے، سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے، سب اچھا
نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے، سب اچھا
دیارِ ماہ میں تعمیر مئے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے، سب اچھا

ہم خاک نشیں‌ خاک بسر شہر میں تیرے

ہم خاک نشیں‌ خاک بسر شہر میں تیرے
کر لیں گے اسے طرح گزر شہر میں تیرے
جب تک تری گلیوں سے رہا ہم کو تعلق
ہمرقص رہے شمس و قمر شہر میں تیرے
کچھ لوگ تمناؤں کا خوں چہرے پہ مَل کر
بیٹھے ہیں سرِ رہگزر شہر میں تیرے

خوشا کہ باغ بہاراں ہے زندگی اپنی

خوشا کہ باغِ بہاراں ہے زندگی اپنی
کسی کے غم سے فروزاں ہے زندگی اپنی
بہت دنوں سے پریشاں ہیں آپ کے گیسُو
بہت دنوں سے پریشاں ہے زندگی اپنی
چھلک رہے ہیں کئی حسرتوں کے پیمانے
لہو سے دل کے چراغاں ہے زندگی اپنی

بدنامئ حیات سے رنجور ہو گئے

بدنامئ حیات سے رنجور ہو گئے
اے یار! تیری بات سے رنجور ہو گئے
یزداں کے حادثات پہ ہم نے کیا یقیں
اپنی شکستِ ذات سے رنجور ہو گئے
مرجھا کے رہ گئی غمِ دشنام کی بہار
فصلِ تکلفات سے رنجور ہو گئے

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر
دل کے ارماں بھی لائے ہیں تمہاری خاطر
ایسا اک سنگ جو تالیفِ رہِ منزل ہو
منزلیں ڈھونڈ کے لائے ہیں تمہاری خاطر
کتنی ناکام امیدوں کے دِیے پچھلے پہر
ہم نے دریا میں بہائے ہیں تمہاری خاطر

تہذیب بے نقاب کی آنکھیں نکال دو

تہذیبِ بے نقاب کی آنکھیں نکال دو 
اس قوم کے شباب کی آنکھیں نکال دو
جس نے سماعتوں کو دیا درسِ بے خودی
اس نغمۂ رُباب کی آنکھیں نکال دو
جس میں نہ ہو بصیرتِ انساں کی چاندنی
اب شیشۂ شراب کی آنکھیں نکال دو

جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے

جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے 
زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے ​
کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے 
کہ پتجھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے 
خیال یار کی رنگینیوں میں گم ہو کر 
جمال یار کی عظمت نکھار دی ہم نے 

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

Tuesday 7 April 2015

دشمنِ دل کو دلربا کہہ کر

دشمنِ دل کو دلربا کہہ کر
لٹ گئے ہم تو مُدعا کہہ کر
وہ جسے ہم نے یار مانا تھا
زہر دیتا رہا ”دوا“ کہہ کر
جان حاضر تھی، جان حاضر ہے
آزما لو کبھی ”ذرا“ کہہ کر

محبتوں کے شجر پر ثمر اگاتے ہوئے

محبتوں کے شجر پر ثمر اگاتے ہوئے
میں جان ہار گیا، گھر کو گھر بناتے ہوئے
یہ کون لوگ ہیں وحشت سجائے آنکھوں میں
منا رہے ہیں خوشی، تتلیاں جلاتے ہوئے
میں خود ہی بھول گیا زندگی کے طور سبھی
کسی کو زندگی جینے کے گُر سکھاتے ہوئے

دنیا سے شکایت ہے نہ تجھ ہی سے خفا ہوں

دنیا سے شکایت ہے، نہ تجھ ہی سے خفا ہوں
قسمت کی عنایت ہے جو تنہا میں کھڑا ہوں
پلکوں پہ جگہ پائی، نہ دامن میں بسا ہوں
اک اشکِ ندامت تھا، سرِ خاک گِرا ہوں
دل پر تو تِری یاد کے بادل کا ہے سایہ
سر پر ہے کڑی دھوپ، جسے جھَیل رہا ہوں

ساتھ چھوٹا جو ترا تو چلے آئے آنسو

ساتھ چھُوٹا جو تِرا تو چلے آئے آنسو
ہم نے کب شوق سے آنکھوں میں بسائے آنسو
کتنے انمول نظارے تھے نظر کے طالب
چشمِ بے داد کو بھائے بھی تو بھائے آنسو
جو بدلتا تھا بساطِ غمِ ہستی، ہنس کر
اب کہ چپ چاپ کھڑا ہے، وہ سجائے آنسو

Sunday 5 April 2015

سوناں

سوناں

ذرا آواز کا لہجہ تو بدلو
ذرا مدھم کرو اِس آنچ کو سوناں
کہ جل جاتے ہیں کنگرے نرم رشتوں کے
ذرا الفاظ کے ناخن تراشو
بہت چُبھتے ہیں جب ناراضگی سے بات کرتی ہو

گلزار

ترے عشق میں

فلمی گیت

تِرے عشق میں

تِرے عشق میں، ہائے! تِرے عشق میں
راکھ سے رُوکھی، کوئل سے کالی
رات کٹے نہ ہِجراں والی
تِرے عشق میں، ہائے! تِرے عشق میں

تِری جستجو کرتے رہے، مرتے رہے
تِرے عشق میں 

آدھی رات اک فون بجا تھا

آدھی رات اک فون بجا تھا
دور کسی موہوم سرے سے
اک انجان آواز نے چھُو کر پوچھا تھا
آپ ہی وہ شاعر ہیں جس نے”
اپنی کچھ نظمیں ”سوناں“ کے نام لکھی ہیں؟
“میرا نام بھی ”سوناں“ ہو تو؟

بڑھیا رے

بُڑھیا رے

بُڑھیا رے ترے ساتھ تو میں نے 
جینے کی ہر شے بانٹی ہے
دانہ، پانی، کپڑا، لتّا، نیندیں اور جگراتے سارے
اولادوں کے جننے سے بنسنے تک اور بچھڑنے تک
غم کا ہر حصہ بانٹا ہے

یہ راہ بہت آسان نہیں

یہ راہ بہت آسان نہیں
جس راہ پہ ہاتھ چھڑا کر تم
یوں تنِ تنہا چل نکلی ہو
اس خوف سے شاید، راہ بھٹک جاؤ نہ کہیں
ہو موڑ پہ میں نے نظم کھڑی کر رکھی ہے
تھک جاؤ اگر

سود در سود

سُود در سُود

اتنی مہلت کہاں کہ گھُٹنوں سے
سر اُٹھا کر فلک کو دیکھ سکوں
اپنے ٹکڑے اٹھاؤں دانتوں سے
ذرّہ ذرّہ کُریدتا جاؤں
چھیلتا جاؤں ریت سے افشاں

Friday 3 April 2015

جیسے یاد انبساط غم شکیبائی کے بعد

جیسے یادِ انبساطِ غم شکیبائی کے بعد
دیر تک روتے رہے ہم بزم آرائی کے بعد
اے سرشتِ شوق! اب ناپید ہو کر دیکھ لے
اور کیا ہونا ہے اس ہونے کی رسوائی کے بعد
خود کو پا لینے کی حسرت میں بہت رسوا ہوئے
کچھ سوا رسوائیاں ہیں اب شناسائی کے بعد

سچا مال

سچّا مال

لفظوں کے سوداگر صاحب
تم سے رسم  و راہ کو کتنے جَگ بِیتے ہیں
لیکن اب تم 
جب آتے ہو
سچّا مال نہیں لاتے ہو
اچھّا مال نہیں لاتے ہو

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن، کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو
سو میں نے ساتھ لیا شام کے ستارے کو
تِرے بہاؤ میں ہوتا رہا کٹاؤ مِرا
کہ روک پایا نہ تیری انا کے دھارے کو
اتر کے آ تو گیا ہوں میں سیڑھیاں، لیکن
پلٹ کے دیکھ رہا ہوں تِرے چوبارے کو

میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں

میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں
کہ جو موجود ہے، اس سے مُکرنا چاہتا ہوں
مِرے کاسے میں شاید اک دلاسے کی جگہ ہے
سو اس کو آخری وعدے سے بھرنا چاہتا ہوں
مِری انگشتری میں آخری نیلم بچا ہے
سو تیری مسندِ دل سے اترنا چاہتا ہوں

جو دیکھیے تو کرم عشق پر ذرا بھی نہیں

جو دیکھیے، تو کرم عشق پر ذرا بھی نہیں
جو سوچیے کہ خفا ہیں، تو وہ خفا بھی نہیں
وہ اور ہوں گے، جِنہیں مقدرت ہے نالوں کی
ہمیں تو حوصلۂ آہِ نارسا بھی نہیں
حدِ طلب سے ہے آگے، جنوں کا استغنا
لبوں پہ آپ سے ملنے کی اب دعا بھی نہیں

مسافر اور تیرا کام کیا ہے

چلا چل مہلت آرام کیا ہے
مسافر اور تیرا کام کیا ہے
ہمارا واسطہ ہے ان کے ڈر سے
ہمیں سارے جہاں سے کام کیا ہے
تمہارا حسن تو ہے غیر فانی
ہمارے عشق کا انجام کیا ہے

Thursday 2 April 2015

یہ کام دوسروں سے نہ لے یار، تو ہی کر

یہ کام دوسروں سے نہ لے یار، تُو ہی کر
میں ترا شہر ہوں مجھے مسمار تُو ہی کر
تُو نے ہی پھول بوئے تھے، انصاف تو یہ ہے
اپنے لہو سے پرورشِ خار تُو ہی کر
ترکِ تعلقات کی نوبت تو آ چکی
لیکن جواز ڈھونڈ کر اظہار تُو ہی کر

تو نے تو اے رفیق جاں اور ہی گل کھلا دئیے

تُو نے تو اے رفیق جاں! اور ہی گل کھلا دئیے
بخیہ گری کے شوق میں زخم نئے لگا دئیے
دستِ ہوا نے ریت پر پہلے بنائے راستے
پھر مرے گھر کے راستے، گھر سے ترے ملا دئیے
کتنی تھی اجنبی فضا، پہلے پہل فراق میں
درد کے اشتراک نے دوست کئی بنا دئیے

یونہی تنہا تنہا نہ خاک اڑا، مری جان میرے قریب آ

یونہی تنہا تنہا نہ خاک اڑا، مِری جان میرے قریب آ
میں بھی خستہ دل ہوں تِری طرح مری مان میرے قریب آ
میں سمندروں کی ہوا نہیں کہ تجھے دکھائی نہ دے سکوں
کوئی بھولا بسرا خیال ہوں نہ گمان میرے قریب آ
نہ چھپا کہ زخمِ وفا ہے کیا، تِری آرزؤں کی کتھا ہے کیا
تِری چارہ گر نہ یہ زندگی نہ جہان میرے قریب آ

معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ

معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
بچھڑے گا تو پھر یاد بھی آئے گا بہت وہ
اب جس کی رفاقت میں بہت خندہ بہ لب ہیں
اس بار ملے گا تو رلائے گا بہت وہ
چھوڑ آئے گا تعبیر کے صحرا میں اکیلا
ہرچند ہمیں خواب دکھائے گا بہت وہ

ہیں یوں تو بہت آپ کی قربت سے بھی محروم

ہیں یوں تو بہت آپ کی قُربت سے بھی محروم
ہم لوگ کہ ہیں، اپنی رفاقت سے بھی محروم
ہر لمحہ ہیں اک ہجرِ مسلسل کی فضا میں
پھر بھی ہیں، غمِ ہجر کی راحت سے بھی محروم
صحرا کی طرح ہے کہ شجر ہیں نہ کہیں پھول
جو ذہن ہے شعروں کی لطافت سے بھی محروم

یہی تھا جانِ من بالکل ہمارا حال پہلے بھی

یہی تھا جانِ من! بالکل ہمارا حال پہلے بھی
یہی ہم سوچتے تھے آج سے کچھ سال پہلے بھی
ردائے خواب سے باہر نہیں نکلے ہیں ہم اب تک
ستاروں سے بھری اوڑھے ہوئے تھے شال پہلے بھی
اسی دامن سے آنسو پونچھتے تھے خلوتوں میں ہم
اسی مٹی میں رلتے تھے ہمارے لال پہلے بھی

رابطے رشتے نہ دیوار نہ در سے اس کے

رابطے رشتے نہ دیوار نہ در سے اس کے
کیسے آگاہ کوئی ہو گا ہنر سے اس کے
بے سبب کیسے کوئی اس کی گواہی دے گا
لوگ اگ آئیں حمایت میں کدھر سے اس کے
کچھ ہمیں بھی نہ رہا بات سمجھنے کا شعور
کچھ اشارے بھی نہیں صاف ادھر اس کے

آج پھر ستائے گی رات پورے چاند کی

آج پھر ستائے گی رات پورے چاند کی
دربدر پھرائے گی رات پورے چاند کی
بام و در کی قید میں روح پھڑپھڑائے گی
وحشتیں بڑھائے گی رات پورے چاند کی
جس طرف میں جاؤں گا میرے سائے کی طرح
میرے ساتھ جائے گی رات پورے چاند کی

نہ خط لکھوں نہ زبانی کلام تجھ سے رہے

نہ خط لکھوں نہ زبانی کلام تجھ سے رہے
خاموشیوں کا یہی انتقام تجھ سے رہے
رہے بس اتنا شناسائی کا بھرم باقی
اشارتاً ہی دعا و سلام تجھ سے رہے
نہ عہدِ ترکِ تعلق، نہ قربتیں پیہم
بس ایک ربطِ مسلسل، مدام تجھ سے رہے