جو بوجھ بھی ہو خود ہی میری جان اٹھانا
ہاں اب نہ کسی دوست کا احسان اٹھانا
وہ شخص اٹھا سکتا نہیں فائدہ ہرگز
جس شخص کو آتا نہیں نقصان اٹھانا
وہ چاند کی چودہ کو سمندر کا تلاطم
وہ دل میں کسی یاد کا طوفان اٹھانا
ہو جاتی ہے درپیش کبھی ایسی بھی ہجرت
جب یاد نہیں رہتا ہے سامان اٹھانا
سچ کیسے پنپ سکتا ہے اس شہر میں لوگو
ہو عام جہاں جھوٹ پہ قرآن اٹھانا
ہاں اب نہ کسی دوست کا احسان اٹھانا
وہ شخص اٹھا سکتا نہیں فائدہ ہرگز
جس شخص کو آتا نہیں نقصان اٹھانا
وہ چاند کی چودہ کو سمندر کا تلاطم
وہ دل میں کسی یاد کا طوفان اٹھانا
ہو جاتی ہے درپیش کبھی ایسی بھی ہجرت
جب یاد نہیں رہتا ہے سامان اٹھانا
سچ کیسے پنپ سکتا ہے اس شہر میں لوگو
ہو عام جہاں جھوٹ پہ قرآن اٹھانا
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment