Saturday, 25 April 2015

سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی، دوا اداسی کی 
بہت شریر تھا میں اور ہنستا پِھرتا تھا
پھر اِک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی
امورِ دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تِری چلتی ہے، یا اداسی کی 
چراغِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
وہ امتزاج تھا ایسا کہ دنگ تھی ہر آنکھ
جمالِ یار نے پہنی قبا اداسی کی
اِسی امید پہ آنکھیں برستی رہتی ہیں
کہ ایک دن تو سنے گا خدا اداسی کی
شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شامِ الم نے کہا، اداسی کی
دلِ فسردہ کو میں نے تو مار ہی ڈالا
سو میں تو ٹھیک ہوں اب، تُو سنا اداسی کی
ذرا سا چھو لیں تو گھنٹوں دھکتی رہتی ہے
ہمیں تو مار گئی یہ ادا اداسی کی
بہت دنوں سے میں اس سے نہیں مِلا فارسؔ
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی 

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment