Tuesday, 28 April 2015

ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا

ذہانتوں کو کہاں کَرب سے فرار مِلا
جسے نگاہ مِلی، اس کو انتظار مِلا
وہ کوئی راہ کا پتھر ہو یا حسِین منظر
جہاں سے راستہ ٹھہرا، وہیں مزار مِلا
کوئی پکار رہا تھا کھلی فضاؤں سے
نظر اٹھائی تو چاروں طرف حِصار مِلا
ہر ایک سانس نجانے تھی جستجو کس کی
ہر اِک دیار مسافر کو بے دیار مِلا
یہ شہر ہے کہ نمائش لگی ہوئی ہے کوئی
جو آدمی بھی مِلا، بن کے اشتہار مِلا

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment