Thursday 30 April 2015

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رُکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لیے
کوئی نسیم کا نغمہ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لیے
خدا نکردہ زمین پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تُند بگولے سنبھالنے کے لیے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لیے
تِرے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لیے
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے
کنویں میں پھینک کے پچھتارہا ہوں دانشؔ
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لیے

احسان دانش

No comments:

Post a Comment