Thursday 23 April 2015

صاحب منبر و سجود خون بہا کے خوش ہوئے

صاحبِ منبر و سجود، خون بہا کے خوش ہوئے 
داعشی دیو کے حضور بھینٹ چڑھا کے خوش ہوئے
راہِ محمدیؐ کے ساتھ ایسا ستم کیا گیا 
اندھی روایتوں کو بھی، دین میں ضم کیا گیا
کتنا عظیم علم تھا، جس کی نہ قدر کی گئی 
جامِ خِرد کے نام پہ کچی شراب دی گئی
فرقہ با فرقہ واردات، درس با درس مشکلات 
یہ میرے فاتحین ہیں، پوچھ رہی ہے کائنات
دہر با دہر خستگی، قریہ با قریہ ذِلتیں 
اپنے وہی مناظرے، اپنی وہی جبِلتیں
جس نے سوال اٹھا دیا، اس کو نڈھال کر دیا
قتلِ بشر حرام تھا، ہنس کے حلال کر دیا
سبز کا ذکر تو کُجا، سرخ بھی زرد ہو گئے 
فکر و عمل کے قافلے، راہ کی گرد ہو گئے
علم کے نام پر یہاں، جھوٹ پڑھا رہا ہے کون 
زہر ملی دوائیاں، بیچ کے کھا رہا ہے کون 
ہم نے بجھا کے رکھ دیے، علم و کتاب اور نصاب 
ہم نے جلا کے رکھ دیے کتنے رُخان مہتاب
اپنے قصور کو علیؔ مانتے کیوں نہیں ہیں ہم 
نوچ رہے ہیں اپنا آپ، جانتے کیوں نہیں ہیں ہم 

علی زریون

No comments:

Post a Comment