Tuesday 28 April 2015

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بِھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
ادھر ادھر کئی منزلیں ہیں جو چل سکو تو چلو
بنے بنائے ہیں سانچے جو ڈھل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتے ہیں 
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا 
مجھے گِرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی، کچھ خواب، کچھ امیدیں 
انہی کھلونوں سے اگر تم بھی بہل سکو تو چلو
ہر ایک سفر کو ہے محفوظ راستوں کی تلاش
حفاظتوں کی روایت بدل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج، دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment