Saturday 25 April 2015

تو نے مستی وجود کی کیا کی

تُو نے مستی وجود کی کیا کی 
غم میں بھی تھی جو اِک خوشی کیا کی
ناز بردارِ دلبراں اے دل 
تُو نے خود اپنی دلبری کیا کی
آ گیا مصلحت کی راہ پہ تُو 
اپنی ازخود گزشتگی کیا کی
رہروِ شامِ روشنی تُو نے 
اپنے آنگن کی چاندنی کیا کی
تیرا ہر کام اب حساب سے ہے 
بے حسابی کی زندگی کیا کی
یُوں ہی پھرتا ہے تُو جو راہوں میں 
دل محلّے کی وہ گلی کیا کی
اِک نہ اِک بات سب میں ہوتی ہے 
وہ جو اِک بات تجھ میں تھی کیا کی
جل اُٹھا دل، شمالِ شام مِرا 
تُو نے بھی میری دل دہی کیا کی
نہیں معلوم ہو سکا دل نے 
اپنی اُمیِد آخری کیا کی
جونؔ دنیا کی چاکری کر کے 
تُو نے دل کی وہ نوکری کیا کی

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment