ہنسے، تو آنکھ سے آنسو رواں ہمارے ہوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو ان کے نام کے ہیں
بہت سے قرض، سرِ دوستاں، ہمارے ہوئے
کہیں تو آگ لگی ہے، وجود کے اندر
گرج برس کے نہ ہم کو ڈبو سکے بادل
تو یہ ہوا کہ وہی بادباں ہمارے ہوئے
فرازؔ! منزلِ مقصود بھی نہ تھی منزل
کہ ہم کو چھوڑ کے ساتھی رواں ہمارے ہوئے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment