Monday, 20 April 2015

ہنسے تو آنکھ سے آنسو رواں ہمارے ہوئے

ہنسے، تو آنکھ سے آنسو رواں ہمارے ہوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو ان کے نام کے ہیں
بہت سے قرض، سرِ دوستاں، ہمارے ہوئے
کہیں تو آگ لگی ہے، وجود کے اندر
کوئی تو دکھ ہے، کہ چہرے دھواں ہمارے ہوئے
گرج برس کے نہ ہم کو ڈبو سکے بادل
تو یہ ہوا کہ وہی بادباں ہمارے ہوئے
فرازؔ! منزلِ مقصود بھی نہ تھی منزل
کہ ہم کو چھوڑ کے ساتھی رواں ہمارے ہوئے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment