Thursday 30 April 2015

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن
گیسُو مِرے دالان میں لہراؤ کسی دن
سُن سُن کے حریفوں کے تراشے ہوئے الزام
معیارِ حریفاں پہ نہ آ جاؤ کسی دن
یارو! مجھے منظور، تغافل بھی جفا بھی
لیکن کوئی اس کو تو منا لاؤ کسی دن
کیوں ہم کو سمجھتا ہے وہ دو قالب و یک جاں
خوش فہم زمانے کو تو سمجھاؤ کسی دن
گتھی طلب و ترک کی کھلتی ہی رہے گی
اس عقدۂ ہستی کو تو سُلجھاؤ کسی دن
کچھ سوچ کے آپس کی شکایت کو بڑھاؤ
دنیا میں اکیلے ہی نہ رہ جاؤ کسی دن
بے کار پڑے ہیں نگہِ شوق کے بجرے
اس بحر میں طوفان بھی لاؤ کسی دن
ہیں جبکہ مہ و مہرِضیا خواہ تمہیں سے
لو میرے دِئیے کی بھی تو اکساؤ کسی دن
یہ خشک جزیرے کہیں پتھر ہی نہ بن جائیں
آنکھیں جو عطا کی ہیں، نظر آؤ کسی دن
یہ زخمِ طلب، کاوشِ ناخن پہ نہ آ جائے
اس گھاؤ کو مرہم سے بھی سُلگاؤ کسی دن
دانشؔ ہی کے اشعار ہیں دانشؔ ہی کے افکار
ایسا نہ ہو دانش ؔہی کے ہو جاؤ کسی دن

احسان دانش

No comments:

Post a Comment